انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو رفاعہؓ عدوی نام ونسب تمیم نام، ابو رفاعہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،تمیم بن اسید بن عدی بن مالک بن تمیم بن دؤل بن جبل بن عدی بن عبدمناۃ بن اوبن طانجہ بن الیاس بن مضر عددی مضری اسلام غالباً فتح مکہ کے بعد کسی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے، اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے، کہ ابو رفاعہ پہنچے اور قریب جاکر عرض کیا یا رسول اللہ ایک غریب الدیار، اپنے دین کی بابت سوال کرنے آیا ہے،وہ نہیں جانتا کہ اس کا مذہب کیا ہے،اس سوال پر آپ نے خطبہ روک کر اپنے پاس بلایا اورایک کرسی پر جس میں لوہے کے پایے لگے ہوئے،تھے بیٹھ کر ان کو ضروری تعلیم دی۔ (مسلم کتاب الجمعہ باب تخفیف الصلوٰۃ والخطبہ) جہاد فی سبیل اللہ اورشہادت ابو رفاعہ کی رگ رگ میں جہاد فی سبیل اللہ کا خون دوڑتا رہتا تھا وہ خدا سے دعا مانگا کرتے تھے کہ خدا مجھے ایسی طاہر اورپاکیزہ موت دے جس پر دوسرے مسلمانوں کو رشک آئے، اوروہ موت تیری راہ میں ہو (ابن سعد،جلد۷،ق۱،صفحہ:۴۸) ان کی یہ پراخلاص دعا مقبول ہوئی۔ ۴۴ھ میں عبد الرحمن بن سمرہ کی ماتحتی میں کابل پر فوج کشی ہوئی، اس فوج میں بنو حنیفہ کا پورا قبیلہ شریک ہوا ابو رفاعہ نے بھی شرکت کا ارادہ کیا،ابو قتادہ عدوی نے روکا کہ تمہارے بال بچے بالکل تنہا ہیں،اس لیے تم نہ جاؤ، لیکن یہ ذوق شہادت میں بے تاب تھے،جواب دیا،میں مصمم ارادہ کرچکا ہوں،اس لیے ضرور شریک ہوں گا؛چنانچہ فوج میں شامل ہوکر کابل روانہ ہوگئے،سجستان پہنچنے کے بعد رات بھر فوج ایک قلعہ کے گرد چکر لگاتی رہی اور ابو رفاعہ شہادت کی تیاری میں ساری رات عبادت کرتے رہے،آخری میں شب میں نیند کا غلبہ ہوا، ڈھال کا تکیہ لگا کر سوگئے،صبح کو اسلامی فوج دشمن کے رخ کا اندازہ لگانے میں ایسا مشغول ہوئی کہ کسی کو ابو رفاعہ کا خیال نہ رہا، ابو رفاعہ رات بھر کے جگے تھے، صبح کو بھی آنکھ نہ کھلی، دشمنوں نے انہیں تنہا پا کر ذبح کردیا،کچھ دیر کے بعد جب لوگوں کو ان کا خیال آیا اوران کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ وہ خاک و خون میں غلطان ہیں اور تین گبر جنہوں نے ان کو قتل کیا تھا ان کے کپڑے اتاررہے ہیں کہ اتنے میں مسلمان پہنچ گئے اورقاتلوں کو بھگا کر شہید فی سبیل اللہ کی لاش ساتھ لے گئے۔ (ابن سعد،جلد،ق۱،صفحہ۴۸) فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے ممتاز صحابہ میں تھے، علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ ابو رفاعہ فضلائے صحابہ میں تھے قرآن کی متعدد سورتیں براست زبان نبویﷺ سے یاد کی تھیں،حدیثوں سے بھی تہی دامن نہ تھے، حمید بن بلال اورصلہ بن اثیم نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ ذوق عبادت عبادت اورریاضت ان کا خاص مشغلہ تھا،تلاوتِ قرآن سے غیر معمولی شغف تھا،تہجد بڑے التزام اورپابندی کے ساتھ پڑہتے تھے،ایک موقع پر انہوں نے خود بیان کیا تھا کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے بقرہ اوردوسری آیاتِ قرآنی سیکھی ہیں، اس وقت سے نہ بقرہ نے میرا ساتھ چھوڑا اورنہ قیام لیل سے کسل پیدا ہوا۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۱،صفحہ:۴۸)