انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شیخ محمدبن عبدالوہاب سے لاتعلقی کا اظہار نواب صدیق حسن خان صاحب نہ چاہتے تھے کہ ان کی جماعت کسی پہلو سے حکومت کی نظر میں معتوب ٹھہرے، اس لیئے وہ لفظ وہابی سے لاتعلقی کے ساتھ شیخ محمد بن عبدالوہاب سے بھی کلیۃً لاتعلقی چاہتے تھے، آپ لکھتے ہیں: "اور سچ تو یہ ہے کہ وہابی ہونا عبارت ہے مقلد مذاہب خاص ہونے سے؛ کیونکہ پیشوا وہابیوں کا محمدبن عبدالوہاب مقلد مذہب حنبلی تھا اور تابعین حدیث کسی مذہب کے مذاہب مقلدین میں سے مقلد نہیں؛ پس وہابیہ اور اہلحدیث میں زمین وآسمان کا فرق ہے"۔ (ترجمان وہابیہ:۴۰) اصل وہابی وہی لوگ ہیں جوپیرومحمد بن عبدالوہاب کے ہیں جس نے سنہ۱۲۱۲ھ میں نشان مخالفت کا ملک نجد عرب میں قائم کیا تھا اور خود یہ ایک غریب جنگجو تھا اس کے جومقلد ہیں وہی وہابی مشہور ہیں۔ (ترجمان وہابیہ:۱۲۳) شیخ محمدبن عبدالوہاب سے اس کھلی مخالفت کے باعث غیرمقلدین حضرات لفظ وہابی کواپنے لیئے گالی سے کم نہ سمجھتے تھے اور نہ چاہتے تھے کہ ان کی شیخ عبدالوہاب سے کوئی نسبت ہو، نواب صاحب مرحوم ایک اور جگہ لکھتے ہیں: "ہم کو وہابی کہنا ایسا ہے جیسا کوئی کسی کوگالی دے"۔ (ترجمان وہابیہ:۱۰۱) پھرایک اور جگہ شیخ کے بارے میں لکھتے ہیں: "وہ مذہب خاص رکھتا تھا اور یہ لوگ (نواب صاحب کے گروہ کے) مذہب خاص نہیں رکھتے، قرآن وحدیث پرعمل کرتے ہیں؛ یہی ان کا مذہب ہے اور ہرفساد کی بات سے ہزاروں کوس بھاگتے ہیں اور نام سے وہابی کے انکار وتعجب کرتے ہیں اور وہابیت کودین میں ایک بدعت جانتے ہیں"۔ (ترجمان وہابیہ:۱۱۸) نواب صاحب مرحوم کاملکی آزادی کی تگ ودوکوفساد سمجھنا ان کا سیاسی موقف ہوسکتا ہے؛ ہمیں اس سے بحث نہیں؛ لیکن آل شیخ کے مسلک کوبدعت قرار دینا یہ ہمیں کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا، شیخ محمدبن عبدالوہاب کے بارے میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی رائے یہ ہے، اس وقت کی سیاسی فضا میں یہ جرأت مندانہ بیان دیکھئے: "محمدبن عبدالوہاب کے مقتدیوں کووہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے اور مذہب ان کا حنبلی تھا؛ البتہ ان کے مزاج میں شدت تھی"۔ (فتاویٰ رشیدیہ:۳۷۴) سوغیرمقلدین حضرات کا شیخ محمدبن عبدالوہاب کے طریقے کوبدعت قرار دینا اور وہابیوں کوبدعتی سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں، یہ مقلدین حقیقت میں حدیث کے ہی پیرو ہیں، تقلید کرنے والے کوبدعتی کہنا اور آلِ شیخ کوبھی مبتدعین قرار دینا یہ ایک زیادتی ہے، مقلدین ائمہ کی پیروی سے حدیث کی پیروی ہی مراد لیتے ہیں، امام کی ذاتی پیروی ان کے پیشِ نظرنہیں ہوتی وہ اس لیئے اُن کی بات مان رہے ہوتے ہیں کہ وہ امام حدیث کے مطابق یامراد حدیث کے مطابق بات کہتے ہوں گے، حضرت مولانا اسماعیل شہید کے ساتھی حضرت شاہ محمداسحاق صاحب محدث دہلوی جومیاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے شیخ حدیث تھے، لکھتے ہیں: "مقلدایشاں راہ ہرگز بدعتی نخواہند گفت زیراکہ تقلید ایشاں تقلیدحدیث شریف است پس متبع حدیث رابدعتی گفتن ضلال وموجب نکال است"۔ (مأتہ سائل سوال:۶۲،۹۳) اس وقت یہ تاریخی موضوع پیشِ نظر نہیں کہ ہندوستان میں لفظ وہابی کی آمد کیسے ہوئی کس طرح یہ لفظ "وہابیان ہزارہ" (جومذہب حنفی کے مقلد تھے) پر آزمایا گیا؛ پھرکس طرح یہ لفظ غیرمقلدین ہند پر (اس مناسبت سے کہ ان کی ہیئتِ نماز آل شیخ کی ہیئتِ نماز سے ملتی جلتی تھی) لایا گیا اور پھر اس لیئےکہ جن لوگوں میں اس لقب کا سیاسی مفہوم کارفرما نہ تھا، یہ لقب اُن سے واپس لے کرانہیں اہلحدیث سے موسوم کیاگیا، یہ مباحث اس وقت موضوع گفتگو نہیں، اس وقت صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہندوستان میں جماعت اہلحدیث کا قیام کب سے عمل میں آیا اور ترکِ تقلید کے عنوان سے اس دور میں یہ جماعت کیسے بنی، مذکورہ تفصیلات سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ترکِ تقلید کے عنوان سے جماعت کے شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی تھے؛ لیکن ان کے عہد تک جماعت مختلف ناموں سے معروف تھی کہیں یہ حضرات محمدی کہلاتے تھے کہیں انہیں موحدین کہا جاتا تھا اور کہیں انہیں اہلحدیث بھی کہہ دیتے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب کے دور تک کچھ اسی طرح کی کیفیت رہی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی پہلے شخص ہیں جنھوں نے بڑی تگ ودو سے اپنے گروہ کے لیئے حکومت سے یہ ٹائٹل منظور کرایا اور اِسی وقت سے جماعت اہل حدیث کے نام سے چل رہی ہے، یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے جس شخص نے پہلے زبان کھولی وہ عبدالحق بنارسی تھا؛ لیکن علمی پہلو سے اس کی کوئی خاص حیثیت نہ تھی؛ سوجماعت کے شیخ الکل جناب میاں نذیر حسین صاحب ہی سمجھ گئے انہی سے اس سلسلے کا باقاعدہ آغاز ہوا اس گروہ کے چند اکابر کا کچھ مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے، ان متقدمین سے اُن کے متاخرین کوسمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔