انوار اسلام |
س کتاب ک |
تراویح میں ہونے والی کوتاہیوں سے بچنا ضروری ہے! تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس میں ایک مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے، قرآن مجید پڑھنے میں صحت کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے، حروف بدل جانے سے یعنی س کی ص یا ث، اسی طرح ص کی جگہس یا ث، ض کی جگہ ز یا ذ، ذ کی جگہ ض یا ز، ت کی جگہ ط، ط کی جگہ ت وغیرہ پڑھنے سے لحن جلی لازم آتا ہے اور کبھی اس قسم کی غلطی سے معنی بدل کر نماز فاسد ہوجاتی ہے، مد، غنہ، اخفاء اور اظہار کی غلطی لحن خفی ہے، اس سے نماز تو فاسد نہ ہوگی مگر بڑی فضیلتوں سے محرومی ہوگی، رمضان المبارک جیسے مقدس اور مبارک مہینے میں اگر تراویح میں باقاعدہ اور پوری صحت ، دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید ختم نہ کیا جائے تو اس سے زیادہ محرومی اور کیا ہوگی؟ تیز پڑھنا مطلقاً قابل مذمت نہیں ہے، اسی لئے قراء نے قراءت کے تین درجے مقرر کئے ہیں، ترتیل، تدویر اور حدر، ترتیل میں آہستہ پڑھا جاتا ہے، تدویر میں اس سے تیز اور حدر میں اس سے تیز، مگر شرط یہ ہے کہ صحت اور صفائی میں کوئی خامی نہ آنے پائے، جو امام تراویح ایسا جلدی اور تیز پڑھتا ہو کہ پاس والے مقتدیوں کو بھی سمجھ میں نہیں آتا تو ایسی قراءت نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ایسی غلطی ہوجائے کہ جس سے لحن جلی لازم آئے اور معنی بدل جائے تو ایسی صورت میں کسی کی بھی تراویح نہ ہوگی اور رمضان المبارک میں تراویح کے اندر ایک مرتبہ قرآن ختم کرنے کی جو سنت ہے وہ سنت بھی کسی کی ادا نہ ہوگی۔ امام پر لازم ہے کہ صحیح صحیح پڑھے، تمام حروف مخارج سے ادا کرنے کا اہتمام کرے اور مقتدیوں پر بھی لازم ہے کہ ایسے شخص کو امام بنائیں (فرض نماز ہو یا تراویح) جو قرآن مجید صحیح صحیح پڑھتا ہو، آج کل حفاظ اور لوگوں نے تراویح میں بہت ہی لا پرواہی اختیار کررکھی ہے، جس میں مسجد میں جلد تراویح پوری ہوتی ہو اور جو حافظ غلط سلط پڑھ کر جلد ختم کردیتا ہو نہ سنت کے مطابق رکوع و سجدہ کرتا ہو نہ قومہ وجلسہ میں تعدیل ارکان کی رعایت کرتا ہو اس کی تعریف کی جاتی ہے، کس قدر افسوس کی بات ہے یہ صورت بھی ہجران قرآن (قرآن چھوڑنے) میں داخل ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۶۷، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۲۵۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)