انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنگ صفین کے آخری دو دن پورے ایک ہفتہ کی سخت زور آزمائیوں کے بعد ۸ صفر فیصلہ کن معرکہ آرائی کے لئے تیار ہوگئے؛چہارشنبہ و پنجشنبہ کی درمیانی شب دونوں نے فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں میں بسر کی،جمعرات کے دن نماز فجر کے وقت بعد از نماز فجر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے پورے لشکر کو لے کر شامیوں پر حملہ کیا، اس حملہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلبِ لشکر میں تھے جہاں کوفہ وبصرہ کے شرفاء اوراہلِ مدینہ جن میں اکثر انصار اورکم تر بنو خزاعہ وبنو کنانہ تھے شامل تھے،میمنہ کی سرداری حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی کو سپرد کی تھی اور میسرہ حضرت عبداللہ کے سپرد کیا تھا، ہر ایک قبیلہ کے لئے جگہ اور مقام مقرر کردیا گیا تھا،ہر ایک قبیلہ کا الگ الگ جھنڈا اور الگ الگ افسر تھا حضرت عمار بن یاسرؓ کو آج رجز خوانوں اورقاریوں کا انتظام سپرد تھا،قیس بن سعد اورعبداللہ بن یزید بھی رجز خوانوں کی افسری پر مامور تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے خیمہ میں بیٹھ کر لوگوں سے موت پر بیعت لی تھی،ان کے لشکر میں حبیب بن مسلمہ میسرہ کے اور عبید اللہ بن عمر میمنہ کے افسر تھے،حضرت علیؓ کے لشکر کا میمنہ اول آگے بڑھا اورعبداللہ بن بدیل خزاعی نے اپنی ماتحت فوج یعنی میمنہ کو لے کر امیر معاویہؓ کے میسرہ یعنی حبیب بن مسلمہ پر حملہ کیا،یہ حملہ اگرچہ نہایت سخت اور نقصان رساں تھا،لیکن اس کا نتیجہ لشکرِ شام کے لئے اچھا نکلا،حبیب بن مسلمہ کی رکابی فوج کو عبداللہ بن بدیل دباتے اور پیچھے ہٹاتے ہوئے اس مقام تک لے گئے جہاں حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ پر موت کے لئے بیعت کی گئی تھی،اپنے میمنہ کی اس نازک حالت کو دیکھ کر حضرت امیر معاویہؓ نے ان لوگوں کو جو ان کے گرد تھے حملہ کا حکم دیا، ان لوگوں کا حملہ ایسا زبردست تھا کہ عبداللہ بن بدیل صرف ڈھائی سو آدمیوں کے ساتھ رہ گئے، باقی تمام عراقی پسپا اور فرار ہوکر اُس مقام تک پہنچ گئے جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کھڑے تھے،اپنے میمنہ کی ایسی ابتر حالت دیکھ کر حضرت علیؓ نےسہیل بن حنیف کو اہلِ مدینہ کا افسر بناکر عبداللہ بن بدیل کی حفاظت وامانت کے لئے روانہ کیا؛ لیکن شامیوں نے سہیل بن حنیف کو عبداللہ بن بدیل تک نہ پہنچنے دیا اور تھوڑی دیر کے بعد عبداللہ بن بُدیل شامی لشکر کے ہاتھ سے معہ اپنے ہمراہیوں کے کام آئے،ادھر میمنہ کی یہ شکست حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے تھی، کہ اُدھر اُن کے میسرہ کو بھی شامیوں کے مقابلہ میں ہزیمت ہوئی، میسرہ میں صرف ایک قبیلہ ربیعہ پامردی واستقلال کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہا، باقی دستے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے، اپنے میسرہ کو فرار ہوتے دیکھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حسنؓ، حسینؓ،محمدؓ،اپنے تینوں بیٹوں کو اُس طر ف روانہ کیا کہ قبیلہ ربعی کے بھی کہیں پاؤں نہ اکھڑ جائیں اور اُشتر کو حکم دیا کہ میمنہ کے فراریوں سے جاکر یہ کہو کہ تم اس موت سے کہاں بھاگے جاتے ہو جس کو تم حیات کے ذریعہ مجبور نہ کرسکو گے،اُشتر نے گھوڑا دوڑا کر میمنہ کے بھاگے ہوئے لوگوں کو حضرت علیؓ کا یہ پیغام سُنایا اور بلند آواز سے غیرت دلانے والے فقرے کہہ کر اُن کو روکا اور اپنے ہمرہ لےکر شام کے مقابلہ پر مستعد کیا،اُدھر حضرت علیؓ میسرہ کی حالت سنبھالنے کے لئے خود متوجہ ہوئے،قبیلۂ ربیعہ نے جب دیکھا کہ حضرت علیؓ خود ہم میں شامل ہوکر چلارہے ہیں تو اُن کی ہمتوں میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ حضرت علیؓ کو بذاتِ خود لڑتے ہوئے دیکھ کر ابو سفیان کا غلام احمر اُن کی طرف جھپٹا لیکن حضرت علیؓ کے غلام کیسان نامی نے آگے بڑھ کر اُس کا مقابلہ کیا، دونوں میں تلوار چلنے لگی، بالآخر احمر کے ہاتھ سے کیسان مقتول ہوا،حضرت علیؓ نے اپنے خادم کو مقتول دیکھ کر احمر پر حملہ کیا اور جوشِ غضب میں اس کو اُٹھا کر اس زور سے زمین پر دے مارا کہ اس کے دونوں ہاتھ بیکار ہوگئے، لشکرِ شام نے حضرت علیؓ کو مصروفِ جنگ دیکھ کر ان پر حملہ کیا،مگر اہلِ ربیعہ نے ان کے حملہ کو روک لیا اور حضرت علیؓ تک اُنہیں نہ پہنچنے دیا،اشتر نے بھی ادھر میمنہ کی حالت کو سنبھال لیا اور لڑائی کا عنوان جو حضرت علیؓ کے لئے بہت خطرناک ہوچکا تھا،کسی قدر درست ہوا اور طرفین نے میدان میں جم کر تلواریں چلانی شروع کیں،عصر کے وقت تک برابر تلوار چلتی رہی، عصر کے قریب مالک اشتر نے امیر معاویہؓ کے میسرہ کو دبا کر پیچھے ہٹایا،لیکن امیر معاویہؓ کی رکابی فوج نے جو مرنے پر بیعت کرچکی تھی اپنے میسرہ کو سہارا دیا اور حضرت علیؓ کے میمنہ کو دھکیل کر دُور تک پیچھے ہٹادیا،حضرت علیؓ کی طرف سے عبداللہ بن حصین جو عمار بن یاسرؓ کے ہمراہیوں میں سے تھے رجز پڑھتے ہوئے آگے نکلے،مخالف سمت سے عقبہ بن حدیبہ نمیری نے بڑھ کر مقابلہ کیا،عقبہ کے مارے جانے پر شامیوں کی طرف سے سخت حملہ ہوا اوراہلِ عراق کو بہت نقصان برداشت کرنا پڑا،لیکن وہ اپنی جگہ پر قائم رہے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ میسرہ کی طرف سے میمنہ والوں کی ہمت بندھانے اوراُن کو لڑائی کی ترغیب دینے کے لئے تشریف لائے، یہاں خوب جم کر نہایت زور شور سے تلوار چل رہی تھی،ادھر ذوالکلاع حمیری اورعبیداللہ بن عمرؓ نے حضرت علیؓ کے میسرہ پر اس شدت سے حملہ کیا کہ قبیلہ ربیعہ کا حکم بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا اور کشتوں کے پشتے لگ گئے، میسرہ کی اس تباہ حالت کو دیکھ کر عبدالقیس نے آگے بڑھ کر ربیعہ کو سنبھالا اور اہلِ شام کی پیش قدمی کو روکا اس بروقت امداد سے میسرہ کی حالت پھر سنبھل گئی اور اتفاق کی بات کہ ذوالکلاع حمیری اورعبید اللہ بن عمرؓ دونوں لڑائی میں کام آئے۔ غرض صبح سے شام تک میمنہ ومیسرہ سے بڑے زور شور سے تلوار چلتی رہی مگر دونوں فوجوں کے قلب ابھی تک ہنگامہ کارزار کے شور وغل سے خالی اور خاموش تھے،آخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے حضرت عمار بن یاسرؓ نے بلند آواز سے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ جو شخص خدا تعالی کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہو اوراس کو مال و اولاد کی طرف واپس جانے کی خواہش نہ ہو وہ میرے ساتھ آجائے وہ یہ کہتے ہوئے، چلے اور اُن کے ساتھ بہت سے لوگ مارنے اورمرنے پر مستعد ہوکر شامل ہوگئے،آخر وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علمبردار ہاشم بن عتبہ کے پاس پہنچے وہ بھی عَلم لئے ہوئے اُن کے ساتھ ہولئے،عمار بن یاسرؓ اپنے ذاتی گروہ کولئے ہوئے لشکرِ شام کے قلب پر حملہ آور ہوئے، اب دن ختم ہوکر رات شروع ہوگئی تھی ،عمار بن یاسرؓ کا یہ حملہ نہایت سخت تھا جس کو عمرو بن العاصؓ نے بڑی مشکل سے روکا،خوب تلوار چلی اور آخر کار حضرت عمارؓ اسی لڑائی میں کام آئے۔ عمار بن یاسرؓ کے مارے جانے کی خبر جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوئی تو سخت صدمہ ہوا اوراس کے بعد لشکرِ اہلِ شام کا بھی ہر حصہ مصروفِ جنگ ہوگیا،تلواروں کی خچاخچ اورنیزوں کی طعن وضرب نیز رجز خوانوں کی آوازوں اور لڑنے والوں کی تکبیروں سے تمام عرصہ شب معمور رہا، یہ رات جمعہ کی رات بھی جو لیلۃ الہر یر کے نام سے مشہور ہے،اسی شب میں حضرت اویس قرنی بھی شہید ہوئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کبھی میمنہ میں ہوتے تھے کبھی میسرہ میں نظر آتے اور کبھی لشکر میں شمیشر زنی کرتے ہوئے دیکھے جاتے تھے، عبداللہ بن عباسؓ میسرہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور اُشتر نے میمنہ کو سنبھال رکھا تھا،اسی طرح معاویہؓ عمرو بن العاصؓ اور دوسرے سرداروں نے لشکر شام کو مصروفِ جنگ رکھا،ساری رات اسی جنگ وپیکار میں بسر ہوگئی،دن کے بعد رات بھی ختم ہوگئی، مگر لڑائی کے ختم ہونےکی کوئی صورت ظاہر نہ ہوئی، جمعہ کا دن شروع ہوا اور آفتاب افقِ مشرق سے طلوع ہوا تو اس نے غروب ہوتے وقت دونوں لشکروں کو جس طرح مصروفِ قتال چھوڑا تھا اسی طرح مصروفِ قتال دیکھا۔ لیلۃ الہریر کی جنگ وپیکار میں ایک قابلِ تذکرہ واقعہ یہ بھی ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک مرتبہ بارہ ہزار سواروں کا زبردست دستہ لئے ہوئے اس سرعت وقوت سے حملہ آور ہوئے کہ حضرت امیر معاویہؓ کے خیمے تک پہنچ گئے اور امیر معاویہؓ کو آواز دے کر کہا کہ مسلمانوں کے قتل کرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے،آؤ ہم دونوں میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں،ہم میں جو کامیاب ہو وہی خلیفہ ہوجائے گا، اس آواز کو سُن کر عمرو بن العاص ؓ نے امیر معاویہؓ سے کہا کہ بات تو معقول ہے،آپ کو مقابلہ کے لئے نکلنا چاہئے،امیر معاویہؓ نے کہا کہ اس فیصلے کو تم اپنے لئے کیوں پسند نہیں کرتے؟ کیا تم کو معلوم نہیں کہ علیؓ کے مقابلہ پر جو شخص میدان میں نکلتا ہے وہ جاں بر نہیں ہوتا،پھر ہنس کر کہا کہ شاید تم مجھ کو اس لئے مقابلہ پر بھیجتے ہو کہ میں مارا جاؤں اور میرے بعد تم ملکِ شام کے مالک بن بیٹھو،غرض امیر معاویہؓ کی طرف سے حضرت علیؓ کو کوئی جواب نہیں دیا گیا اور وہ اپنے لشکر کی طرف تشریف لے آئے،جمعہ کے دن بھی دوپہرتک بدستور لڑائی جاری رہی،اب تلوار چلتے ہوئے مسلسل تیس گھنٹے سے زیادہ مدت گزرچکی تھی، اس تیس گھنٹہ میں ستر ہزار کے قریب آدمی طرفین سے مارے جاچکے تھے،اسلام کی اتنی بڑی طاقت کا آپس میں لڑکر ضائع ہونا سب سے بڑی مصیبت تھی، جو اس تیس گھنٹہ کی منحوس مدت میں مسلمانوں پر وارد ہوئی،ستر ہزار ایسے بے نظیر بہادروں کو قتل کراکر تو مسلمان نہ صر ف اس زمانہ کی ساری دنیا ؛بلکہ ایسی کوئی دنیاؤں کو فتح کرسکتے تھے،جب دوپہر ڈھل گیا تو مالک اُشتر نے اپنے متعلقہ حصہ فوج کا چارج عیان بن جوزہ کو سپرد کیا، اورخود سواروں کی جمعیت کو ایک طرف لے جاکر اہلِ شام پر حملہ کرنے اور جان دینے کی ترغیب دی، سواروں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم فتح حاصل کئے یا جان دیئے بغیر واپس نہ آئیں گے،سواروں کا ایک حصہ حضرت علیؓ کی رکاب میں رہا اور بڑے حصہ کو اشتر نے لےکر ایک مناسب سمت سے شامی لشکر پر حملہ کیا،لڑائی کا فیصلہ کرنے کے لئے یہ وقت بھی بہت ہی مناسب آگیا تھا کیونکہ اب تک کی لڑائی میں اگرچہ پہلے دن یعنی جمعرات کے روز شامی لشکر چیرہ دست اور غالب نظر آتا تھا، حضرت علیؓ کے لشکر کی حالت جمعرات کے دن شام تک ایسی خطرناک تھی جس سے گمان ہوسکتا تھا کہ شکست انہیں کے حصے میں آئے گی اور لشکرِ شام فتح مند ہوجائے گا، لیکن رات کے معرکہ میں شامیوں کے آدمی زیادہ مارے گئے اور اب جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے تک اگرچہ لڑائی کانٹے کی تول برابر تُلی ہوئی نظر آتی تھی مگر شامیوں کے نصف سے زیادہ آدمی مارے جاچکے تھے اوران کی تعداداب بجائے اسی ہزار کے صر۳۵ہزار رہ گئی تھی، حضرت علیؓ کے لشکر میں اب تک بیس پچیس ہزار آدمی مارے گئے تھے اور اُن کی تعداد ساٹھ ہزار باقی تھی، یعنی حضرت علیؓ کے لشکر کی تعداد اب حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر کی تعداد سے دُگنی تھی۔ ایسی حالت میں حضرت علیؓ کے لئے موقع تھا کہ وہ دشمن کو مصروفِ جنگ رکھتے ہوئے اپنی فوج کے ایک معقول حصہ کو جُدا کر کے مصروف ومشغول دشمن کے پہلو یا پشت پر ایک زبردست ضرب لگائیں کہ اس کا کام تمام ہوجائے اور لڑائی کا نتیجہ فتح کی شکل میں فوراً برآمد ہوجائے؛چنانچہ مالک اُشتر نے اپنے فدائی سواروں کے ساتھ ایک نہایت ہیبت ناک حملہ کیا، یہ حملہ سواروں ہی کے ذریعہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ جو فوج تیس یا بتیس گھنٹہ سے برابر مصروفِ جنگ تھی اس کے سپاہیوں میں جسمانی طاقت بہت کچھ ضعف وتکان کی مغلوب ہوچکی ہوگی،ایسے سپاہیوں کے حملے میں مرغوب کن شان کا پیدا کرنا آسان نہ تھا،لیکن گھوڑوں کو اب تک زیادہ کام نہ کرنا پڑا تھا اور وہ پیدل سپاہیوں کی نسبت یقیناً تازہ دم تھے،اُشتر نے برق وباد کی طرح حملہ کیا،صفوں کو ریلتا،ڈھکیلتا اورروندتا ہوا شامیوں کے قلبِ لشکر تک پہنچ گیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب اشتر کو کامیاب حملہ کرتے اوراس کے علم کو دم بدم آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تو ادھر سے اپنے رکابی سواروں کے کمکی دستے یکے بعد دیگرے پیہم بھیجنا شروع کئے تاکہ اس حملہ کی ترقی کسی جگہ رُکنے نہ پائے اور اُشتر دم بدم زیادہ طاقتور ہوتا جائے۔ اس تدبیر کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا، شامی فوج کا علمبردار بھی اُشتر کےہاتھ سے مارا گیا اور عمرو بن العاصؓ اور حضرت معاویہؓ کی فرودگاہ کے سامنے کشت وخون ہونے لگا،اُشتر کے حملہ آور ہونے کے وقت شدتِ جنگ کی وجہ سے دونوں فوجوں کا پھیلاؤ سمٹ چکا تھا،میمنہ اور میسرہ اپنے اپنے قلب کے ساتھ مل کر ایک ہوگئے تھے اور پوری تیزی سے ایک دوسرے کے قتل کرنے میں مصروف تھے،اگر میمنے اورمیسرے پھیلے ہوئے ہوتے اورلڑائی کے مرکز ہوتے تو اُشتر کا یہ حملہ کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ فوج کے ایک حصے کا زور بآسانی دوسرے حصے کی جانب منتقل کیا جاسکتا اور سپہ سالارِ اعظم کوئی نہ کوئی تدبیر نکال سکتا تھا،لیکن یہ حملہ ایسے صحیح موقع اور مناسب وقت پر کیا گیا تھا کہ شامی لشکر کی شکست میں کوئی کسر باقی نہ تھی،لشکرِ شام کے سردار حریف کو اپنے قلب لشکر میں چیرہ دست اور اپنے علمبردار کو مقتول دیکھ کر حو اس باختہ ہوچکے تھے،ساری کی ساری طاقت اپنے مد مقابل سے زور آزمائی میں مصروف تھی اوران اچانک آپڑنے والے حملہ آوروں کی مدافعت کے لئے کوئی محفوظ طاقت باقی نہ تھی،ابھی تک شامیوں نے میدانِ جنگ سے منھ نہیں موڑا تھا اور ابھی تک وہ کسی طرح شکست خوردہ نہیں کہے جاسکتے تھے،لیکن ان کے شکست پانے اورہزیمت یافتہ ہونے میں اب گھنٹوں کی نہیں ؛بلکہ منٹوں کی دیر تھی کہ حضرت عمروبن العاصؓ کی انگشتِ تدبیر کے ایک اشارے نے نتیجہ جنگ کو ادھر سے اُدھر پلٹ دیا۔ ادھر سے اُدھر پھر گیا رُخ ہواکا