انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اکابر جماعت اہلِ حدیث کے بیانات مرزا غلام احمد قادیانی کے پرانے دوست مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں: "پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں"۔ (اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء) پھرآپ یہ بھی لکھتے ہیں: "اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں"۔ (اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء) مولانا سیدعلی میاں ندویؒ کے والد مولانا سیدعبد الحیی مرحوم "نزہتہ الخواطر" کی آٹھویں جلد میں مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے ذکر میں لکھتے ہیں: "وشدد النکیر علی مقلدی الائمۃ الاربعۃ لاسیما الاحناف وتعصب فی ذلک تعصباً غیرمحمود فثارت بہ الفتن وازدادت المخالفۃ بین الاحناف واھل الحدیث ورجعت المناظرہ الی المکابرۃ والمجادلۃ والمقاتلۃ لماکبرت سنہ ورای ان ھذہ المنازعۃ کانت سبباً لوھن الاسلام ورجع المسلمون الیٰ غایۃ من النکبۃ والمذلۃ رجع الی ماھواصلح لھم فی ھذہ الحالۃ __________ واماماکان علیہ من المعتقد والعمل فھو علی ماقال فی بعض الرسائل ان معتقدہ معتقد السلف الصالح مماورد بہ الاخبار وجاءفی صحاج الاخبار ولایخرج مماعلیہ اھل السنۃ والجماعۃ ومذہبہ فی الفروع مذہب اہل الحدیث التمسکین بظواھر النصوص"۔ (تقدمہ علی الاجوبۃ الفاضلۃ لاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ للشیخ عبدالفتاح ابی غذ:۸، مطبوع:بحلب) ترجمہ: مولانا بٹالوی نے مقلدین ائمہ اربعہ خصوصاً احناف کے خلاف شدت اختیار کی اور اس میں ایسے تعصب سے چلے کہ اسے اچھا نہیں کہہ سکتا؛ پس اس سے بھڑک اُٹھے اور احناف اور فرقہ اہلِ حدیث کے مابین مخالفت زیادہ ہوگئی مناظرے، مکابرہ، مجادلہ؛ بلکہ مقاتلہ تک پہنچے؛ پھرجب آپ بڑی عمرکو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ مقلدین سے یہ کھچاؤ ضعف اسلام کا سبب ہوگیا ہے اور مسلمان رسوائی اور بدبختی کے گڑھے میں جارہے ہیں، آپ پھر اس طرف لوٹے جومسلمانوں کے لیئے اس حالت میں بہتر تھا __________ ہاں جہاں تک آپ کے اعتقاد اور عمل کا تعلق ہے وہ اس پر تھے جیسا کہ آپ نے اپنے بعض رسالوں میں کہا ہے کہ ان کا اعتقاد سلف صالحین کا سا ہے جو اخبار اور صحیح احادیث میں آیا ہے اور وہ اس حد سے نہیں نکلیں گے جواہلِ السنۃ والجماعت کی راہ ہے، رہیں فروعات تواس میں وہ ان اہلِ حدیث کے طریقے پر رہیں گے جونصوص کے ظواہر سے تمسک کرتے ہیں۔ مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی فکری کروٹ پرپوری جماعت اہلِ حدیث کی روش بدل جانی چاہیے تھی؛ لیکن افسوس کہ وہ لفظ حنفی اور شافعی وغیرہ سے اسی طرح سیخ پارہے کہ کسی درجہ میں وہ فقہ کے قریب آنے کے لیئے تیار نہ ہوئے، یہ شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولانا محمدحسین بٹالوی کے مسلک کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی ایک لہر تھی جو جماعت کے بیشتر علماء کولے ڈوبی، بہت کم تھے جومعتدل مزاج رہے اور اہلِ السنۃ والجماعت کے دائرہ کے اندر رہے، غالباً سنہ۱۳۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ جماعت اہلِ حدیث کے اعیان وارکان لا ہور میں جمع ہوئے اور انجمن اہلِ حدیث کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر مولانا محمدحسین بٹالوی قرار پائے، مولانا بٹالوی مرزا غلام احمد قادیانی کاحال دیکھ کر ضرور سمجھتے تھے کہ غیرمقلدین فقہ اور مقلدین سے جونفرت بڑھا رہے ہیں، اس سے اندیشہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت یہ لوگ (غیرمقلدین) پورے اسلام سے ہی منحرف نہ ہوجائیں، انہوں نے اہلِ حدیث کے ساتھ اپنے کوحنفی کہنے کی بھی راہ نکالی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں: "لاہور میں ایک مجلس اہلحدیث کے نام سے نامزد ہوکر قائم ہوئی ہے (یہ مجلس نامزد ہوکر قائم ہوئی تھی حکومت برطانیہ نے یہ نام اہلِ حدیث انہیں الاٹ کیا تھا ) صدر ہونے کی عزت اس ناچیز کوبخشی گئی ہے، اس میں یہ امربحث میں آیا تھا کہ اہلِ حدیث (جس کی طرف یہ انجمن منسوب ہوئی ہے) کی کیا تعریف ہے اور اہلِ حدیث سے کون شخص موسوم ہوسکتا ہے (جواس انجمن کے ارکان اور مجلس منتظمہ میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہو) اس کا تصفیہ رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد:۲۰ کے صفحہ نمبر۱ (جواہلِ حدیث کی قوم کا اور گورنمنٹ میں مہتمم ایڈوکیٹ Representative ریپریزنٹیٹیو ہے) کے اس بیان سے ہوگیا کہ اہلِ حدیث وہ ہے جواپنا دستور العمل والاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کوبنادے (احادیث کے ساتھ آثار سلفیہ کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ارشادات کوبھی اپنے لیےسند سمجھے) اور جب اس کے نزدیک ثابت ومحقق ہوجائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یااس سے قوی پایا نہیں جاتا تووہ ان احادیث وآثار پرعمل کرنے کومستعد ہوجاوے اور اس عمل سے اس کوکسی امام یامجتہدکا قول بلادلیل مانع نہ ہو"۔ (غیرمقلدین علماء لفظ بلادلیل کوہمیشہ قول کی صفت بتاتے ہیں، یعنی وہ بات جس پر شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو ظاہر ہے کہ اس کا ماننا کسی کے ہاں معتبر نہیں، مقلدین اسے قول کی صفت نہیں ماننے کی صفت بتلاتے ہیں کہ کسی مجتہد کی بات کواس سے دلیل طلب کیئے بغیر اس کے اعتماد پر مان لینا کہ قرآن وحدیث کے مطابق ہی بتلارہا ہوگا)۔ ازآنجا کہ اس تعریف کی رُو سے بے تعصب ومنصف مزاج مقلدین مذاہب اربعہ حنفیہ وغیرہ جوعمل بالحدیث کوجائزرکھتے اور سعادت سمجھتے، تقلید مذہب ان کواس عمل بالحدیث سے مانع نہ ہوتی، داخل ہوسکتے ہیں، نظر برآں اس انجمن کے صدر خاکسار کی یہ رائے قرار پائی کہ اس انجمن کے نام میں ایسی تعمیم وتوسیع ہوجانی چاہیے کہ اس کا نام سنتے ہی وہ مقلدین جوعمل بالحدیث کوسعادت سمجھتے ہیں داخل سمجھے جائیں بناءً علیہ اس کے تجویز یہ ہوئی کہ لفظ انجمن اہلِ حدیث کے ساتھ بریکٹ میں حنفیہ وغیرہ بڑھادیا جائے۔ (ماہنامہ الہدی، بابت ماہ ذیقعدہ، سنہ۱۳۲۷ھ، باہتمام مولوی کریم بخش، مہتمم ومالک اسلامیہ اسٹیم پریس، لاہور) پھرمولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی اپنی رائے ملاحظہ کیجئے: "صدرانجمن خاکسار چونکہ باوجود اہلِ حدیث ہونے کے حنفی بھی کہلانا جائز رکھتا تھا؛ لہٰذا اس امر کا اظہار اپنے ماہوار رسالہ اشاعۃ السنۃ اور "سراج الاخبار" کے ذریعہ کردیا، یہ امرہمارے رُوحانی فرزند (مولانا ثناء اللہ امرتسری جوان دنوں پرچہ اہلِ حدیث کے ایڈیٹر تھے) نوجوانوں کوجوصرف اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور وہ حنفی وغیرہ کہلانا پسند نہیں کرتے ناگوار گزرا اور انہوں نے خاکسار کے اس اظہار کے خلاف اپنے اخبار اہلِ حدیث میں یہ نوٹ شائع کرادیا....الخ"۔ مولانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا ؎ کسی کا ہورہے کوئی نبی کے ہورہیں گے ہم مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اس کے جواب میں لکھا ؎ نبی کے ہیں سبھی حنفی نہ مرزائی نہ چکڑالی نہ معتزلی جوجاحظ کی کرتے ہیں شاگردی لفظ اہلِ حدیث ماضی میں ایک علمی شان رکھتا تھا، فرقہ اہلِ حدیث میں جب جاہل بھی اہلِ حدیث کہلانے لگے توپوری کی پوری جماعت نت نئے نئے اُٹھنے والے فتنوں کا دروازہ بن گئی، مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین بھی پہلے اہلِ حدیث بنے تھے (تاریخ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ:۶۹،۷۰، حرمین سے واپسی پر نورالدین نے وہابیت اختیار کی اور ترکِ تقلید پروعظ کیئے اور عدم جوازِ تقلید پرکتابیں تصنیف کیں، بھیرہ میں ہیجانِ عظیم پیدا ہوگیا __________ چودھری ظفراللہ خان قادیانی بھی اپنے دادا چودھری سکندرخان کے بارے میں لکھتے ہیں: "جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے وہ اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے" تحدیثِ نعمت:۳) پھرمرزائی بنے۔