انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اسلام اور ہجرت اسلام حضرت علی ؓ کاسن ابھی صرف دس سال کا تھا کہ ان کے شفیق مربی کو دربارِ خداوندی سے نبوت کا خلعت عطاہوا، چونکہ حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ رہتے تھے اس لئے ان کواسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے؛چنانچہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کو مصروفِ عبادت دیکھا، اس مؤثر نظارہ نے اثر کیا،طفلانہ استعجاب کے ساتھ پوچھا ،آپ دونوں کیا کررہے تھے؟ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے منصبِ گرامی کی خبردی اورکفر وشرک کی مذمت کرکے توحید کی دعوت دی،حضرت علی ؓ کے کان ایسی باتوں سے آشنا نہ تھے، متحیر ہوکر عرض کیا،اپنے والد ابوطالب سے دریافت کروں اس کے متعلق؟چونکہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی اعلان عام منظور نہ تھا،اس لئے فرمایا کہ اگر تمہیں تامل ہے توخود غورکرو؛لیکن کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرنا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش سے فطرت سنورچکی تھی، توفیق الہیٰ شامل ہوئی،اس لئے زیادہ غوروفکر کی ضرورت پیش نہ آئی اوردوسرے ہی دن بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوگئے۔ اس بارے میں اختلاف ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بعد سب سے پہلے کون ایمان لایا، بعض روایات سے حضرت ابوبکر ؓ کی،بعض سے حضرت علی ؓ کی اولیت ظاہر ہوتی ہے اوربعضوں کے خیال میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کا ایمان سب پر مقدم ہے؛لیکن محققین نے ان مختلف احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ عورتوں میں،حضرت ابوبکر صدیق ؓ مردوں میں،حضرت زید بن حارثہ ؓ غلاموں اور حضرت علی ؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ مکہ کی زندگی اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی ؓ کی زندگی کے تیرہ سال مکہ معظمہ میں بسر ہوئے،چونکہ وہ رات دن سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، اس لئے مشورہ کی مجلسوں میں تعلیم وارشاد کے مجمعوں میں،کفارو مشرکین کے مباحثوں میں اورمعبودِحقیقی کی پرستش وعبادت کے موقعوں پر،غرض ہر قسم کی صحبتوں میں شریک رہے۔ حضرت عمر ؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے سرزمین مکہ میں مسلمانوں کے لئے اعلانیہ خدا کا نام لینا اور اس کی عبادت وپرستش کرنا تقریبا ناممکن تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چھپ چھپ کر اپنے معبود حقیقی کی پرستش فرماتے،حضرت علی ؓ بھی ان عبادتوں میں شریک ہوتے،ایک دفعہ وادی نخلہ میں حسب معمول مصروفِ عبادت تھے کہ اتفاق سے اس طرف ابو طالب کا گزرہوا،اپنے معصوم بھتیجے اورنیک بخت بیٹے کو مصروفِ عبادت دیکھ کر پوچھا کیا کرتے ہو؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ حق کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ اس میں کوئی ہرج نہیں ؛لیکن مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت علی ؓ) انتظام دعوت منصب نبوت عطا ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین برس تک اعلانیہ دعوتِ اسلام کی صدا بلند نہیں فرمائی؛بلکہ پوشیدہ طریقہ پر خاص خاص لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے رہے، چوتھے سال کے اعلان عام اور سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں میں اس کی تبلیغ کا حکم ہوا؛چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی: وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبیْنَ "اپنے قریبی اعزہ کو (عذب ِالہی سے) ڈراؤ" سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کے موافق کوہِ صفاپر چڑھ کر اپنے خاندان کے سامنے دعوتِ اسلام کی صدا بلند کی ؛لیکن مدت کا زنگ ایک دن کے صیقل سے نہیں دور ہوسکتا تھا،ابولہب نے کہا :تَبًّالَکَ ،اسی لئے تو نے ہم لوگوں کو جمع کیا تھا؟اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پھر اپنے خاندان میں تبلیغ اسلام کی کوشش فرمائی اورحضرت علی ؓ کو انتظام دعوت کی خدمت پر مامور کیا۔ حضرت علی ؓ کی عمر اس وقت مشکل سے چودہ پندرہ برس کی تھی ؛لیکن انہوں نے اس کمسنی کے باوجود نہایت اچھا انتظام کیا،دسترخوان پر بکرے کے پائے اوردودھ تھا، دعوت میں کل خاندان شریک تھا جن کی تعداد چالیس تھی، حضرت حمزہ ؓ، عباس ؓ،ابولہب اور ابوطالب بھی شرکاء میں تھے، لوگ کھانے سے فارغ ہوچکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُٹھ کر فرمایا:‘‘ یا بنی عبدالمطلب:خداکی قسم میں تمہارے سامنے دنیا وآخرت کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں،بولو تم میں سے کون اس شرط پر میرا ساتھ دیتا ہے کہ وہ میرا معاون و مددگار ہوگا؟ اس کے جواب میں سب چپ رہے،صرف شیر خدا علی مرتضی کی آواز بلند ہوئی کہ گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے، اور میری ٹانگیں پتلی ہیں، تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یاور اوردست وبازو بنوں گا۔’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اچھا تم بیٹھ جاؤاورپھر لوگوں سے خطاب فرمایا؛لیکن کسی نے جواب نہ دیا، حضرت علی ؓ پھر آٹھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دفعہ بھی ان کو بٹھا دیا،یہاں تک کہ جب تیسری دفعہ بھی اس بارِگراں کا اٹھانا کسی نے قبول نہیں کیا تو اس مرتبہ بھی حضرت علی ؓ نے جاں بازی کے لہجہ میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا تو ارشاد ہوا کہ بیٹھ جاؤ تو میرا بھائی اورمیرا وارث ہے۔" (طبری : ۱۲۷۲) ہجرت بعثت کے بعد تقریباً تیرہ برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گھاٹیوں میں اسلام کی صدا بلند کرتے رہے؛لیکن مشرکین قریش نے اس کا جواب محض بغض وعناد سے دیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے،رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کو اسیر پنجۂ ستم دیکھ کر آہستہ آہستہ ان سب کو مدینہ چلے جانے کا حکم دیا؛چنانچہ چند نفوسِ قدسیہ کے علاوہ مکہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا،اس ہجرت سے مشرکین کو اندیشہ ہوا کہ اب مسلمان ہمارے قبضہ اقتدار سے باہر ہوگئے ہیں اس لئے بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی قوت مضبوط کرکے ہم سے انتقام لیں،اس خطرہ نےان کو خود رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا دشمن بنادیا؛چنانچہ ایک روز مشورہ کرکے وہ رات کے وقت کاشانۂ نبوت کی طرف چلے کہ مکہ چھوڑنے سے پہلے ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے رخصت کردیں؛لیکن مشیت الہی تو یہ تھی کہ ایک دفعہ تمام عالم حقانیت کے نور سے پرنور اورتوحید کی روشنی سے شرک کی ظلمت کا فورہوجائے، اس مقصد کی تکمیل سے پہلے آفتاب رسالت کس طرح غروب ہوسکتا ہے،اس لئے وحی الہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے ارادوں کی اطلاع دیدی اورہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ مشرکین کو شبہ نہ ہو،حضرت علی ؓ مرتضیٰ کو اپنے فرشِ اطہر پر استراحت کا حکم دیا اورخود حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ فدیت وجان نثاری کا ایک عدیم المثال کارنامہ حضرت علی ؓ کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ بائیس تئیس برس کی تھی، اس عنفوانِ شباب میں اپنی زندگی کو قربانی کے لئے پیش کرنا فدویت وجاں نثاری کا عدیم المثال کارنامہ ہے، رات بھر مشرکین کا محاصرہ قائم رہا اوراس خطرہ کی حالت میں یہ نوجوان نہایت سکون واطمینان کے ساتھ محو خواب رہا، غرض تمام رات مشرکین قریش اس دھوکہ میں رہے کہ خود سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی استراحت فرما ہیں،صبح ہوتے ہی اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کے لئے اندر آئے؛لیکن یہاں یہ دیکھ کر وہ متحیرہوگئے کہ شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جاں نثار اپنے آقا پر قربان ہونے کے لئے سربکف سورہا ہے، مشرکین اپنی اس غفلت پر سخت برہم ہوئے اورحضرت علی ؓ کو چھوڑ کر اصل مقصود کی تلاش وجستجو میں روانہ ہوگئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن تک مکہ میں مقیم رہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جن لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاروبار اور لین دین تھا، ان کے معاملات سے فراغت حاصل کی اور تیسرے یا چوتھے دن وطن کو خیر باد کہہ کر عازم مدینہ ہوئے، اس زمانہ میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت کلثوم بن ہدم ؓ کے مہمان تھے اس لئے حضرت علی ؓ بھی انہی کے مکان میں جاکر روکش ہوئے،(ابن سعد تذکرہ علی ؓ : ۱۳)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مہاجرین میں باہم بھائی چارہ کرایا تو حضرت علی ؓ کو اپنا بھائی بنایا۔ (ایضاً) تعمیر مسجد مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بے بس ومجبورنہ تھا ؛بلکہ آزادی وحریت کی سرزمین میں تھا جہاں ہر شخص اعلانیہ خدائے واحد کی پرستش کرسکتا اوراحکام شرعیہ نہایت اطمینان کے ساتھ ادا کرسکتاتھا، مسلمانوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جاتی تھی، یہاں تک کہ ہجرت کے چھٹے یا ساتویں مہینہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسجد تعمیر کرنے کا خیال پیدا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بنیاد رکھی اور اپنے رفقاء کے ساتھ خود اس کی تعمیر میں حصہ لیا، تمام صحابہ جوش کے ساتھ شریک کار تھے،حضرت علی ؓ اینٹ اورگارہ لالا کر دیتے تھے اوریہ رجز پڑھتے تھے: لایستوی من یعمر المساجدیدائب فیہ قائما وقاعداومن یری عن الغبار حائدا (زرقابی ج۱ : ۴۲۶) "جو مسجد تعمیر کرتا ہے کھڑے ہوکر اوربیٹھ کر اس مشقت کو برداشت کرتا ہے اور جو گردوغبار کے باعث اس کام سے جی چراتا ہے وہ برابر نہیں ہوسکتے۔"