انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
قاری اور سامع کو لینا دینا اور ان کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟ خدمت کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی معاوضہ ہی ہے اور اجرت طے کرنے کی بہ نسبت زیادہ قبیح ہے، ا س لئے کہ اس میں دوگناہ ہیں، ایک قرآن سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہالتِ اجرت کا گناہ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کہ قاری اور سامع بھی للہ کام کرتے ہیں اور ہم بھی للہ ان کی ختم کرتے ہیں ، معاوضہ مقصود نہیں، ایسے حیلہ بازوں کی نیت معلوم کرنے کے لئے حضرات فقہاء رحمہم اللہ نے یہ امتحان رکھا ہےکہ اگر قاری اور سامع کو کچھ بھی نہ ملے تو وہ آئندہ اس مسجد میں خدمت کے لئے آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور اہلِ مسجد کا یہ امتحان ہے کہ اگر یہ قاری اور سامع ان کی مسجد میں نہ آئیں تو بھی یہ لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں یا نہیں؟ اب دورِ حاضر کے لوگوں کو اس کسوٹی پر لائیے، قاری اور سامع کو اگر کسی مسجد سے کچھ نہ ملا تو آئندہ وہ اس مسجد کی طرف رخ بھی نہیں کریں گے اور اہلِ مسجد کا یہ حال ہے کہ جس قاری یا سامع نے ان کی مسجد میں کام نہیں کیا وہ خواہ کتنا ہی محتاج ہو، ان کو اس کی زبوں حالی پر قطعاً کوئی رحم نہیں آتا، اس سے ثابت ہوا کہ جانبین کی نیت معاوضہ کی ہے اور وہ للہیت کے دعوے میں جھوٹے ہیں، لہٰذا اس طرح سننے اور سنانے والے سب سخت گنہگار اور فاسق ہیں اور ایسے قاری کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ فرائض میں فاسق کی امامت کا یہ حکم ہے کہ اگر صالح امام میسر نہ ہو یا فاسق امام کو ہٹانے کی قدرت نہ ہو تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھ لی جائے، ترکِ جماعت جائز نہیں ، مگر تراویح کا حکم یہ ہے کہ کسی حال میں فاسق کی اقتداء میں نماز جائز نہیں، اگر صالح حافظ نہ ملے تو چھوٹی سورتوں سے تراویح پڑھ لی جائی، اگر محلہ کی مسجد میں ایسا حافظ تراویح پڑھائے تو فرض مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرکے تراویح الگ مکان میں پڑھیں۔ (احسن الفتاویٰ:۳/۵۱۴، زکریا بکڈپو،دیوبند۔فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۲۶۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)