انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** طلبِ حدیث میں نامور اساتذہ کی تلاش اساتذہ کی تلاش کبھی ان کی جامعیت اور عالمی شہرت کے سبب ہوتی ہے اور کبھی سند عالی کی تلاش میں، حدیث جتنے کم واسطوں سے ملے اسے بہتر سمجھا جاتا ہے، محدثین ہردواعتبار سے نامور اساتذہ کی تلاش میں رہتے تھے، امام بخاریؒ کی ثلاثیات اسی وجہ سے ممتاز ہیں کہ ان میں امام بخاریؒ اور آنحضرتﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں، سندعالی محدثین کے لیے ایک بڑا تحفہ اور ایک بہت بڑا اعزاز تھا، محدثینِ عظام اور تابعین کرام توایک طرف خود صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تلاش علم میں ایک عجیب علمی ذوق محسوس کرتے تھے اور طلبِ حدیث میں ایک والہانہ قلبی شوق رکھتے تھے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کی جلالت علمی سے کون واقف نہیں، آپ بھی فرماتے ہیں: "لواعلم احداً ھواعلم بکتاب اللہ منی تبلغہ الابل لرکبت الیہ " (شرح صحیح بخاری:۲/۴۴)اگر میں یہ جان لوں کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم جانتا ہے اور اونٹ اس تک پہنچاسکتاہے تو میں اس شخص تک پہنچنے کے لیےسوارہوجاؤں کتاب اللہ کے بارے میں علم کی طلب یہ نہیں کہ وہ آیات کی تلاش میں دور دراز جانا چاہتے تھے، قرآن کے بارے میں طلبِ علم سے مراد تلاشِ حدیث ہی ہے۔ حضرت جابربن عبداللہؓ (۷۴ھ) نے حضرت عبداللہ بن انیس سے ایک حدیث سننے کے لیے مہینے بھرکا طویل سفر کیا تھا، اس سے آپ ان حضرات کے شوقِ حدیث کا اندازہ کرسکتے ہیں، حضرت امام بخاریؒ لکھتے ہیں: "رحل جابر بن عبداللہؓ سیرۃ شہرالی عبداللہ بن انیس فی حدیث واحد " (مسلم شریف:۱/۲۹) ترجمہ:جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیسؓ صحابی (۵۴ھ) کی طرف ایک مہینہ بھرچلتے رہے، تابعین کوپتہ چلتا کہ فلاں دُور دَراز علاقے میں کوئی صحابی موجود ہے، جواس موضوع پر حضورﷺ سے ایک حدیث سنے ہوئے ہے تو وہ اسے ملنے اور اس سے حدیث لینے کی خاطر دوردراز کے سفر اختیار کرتے؛ گووہ حدیث انہوں نے اور تابعین سے اسی صحابی کی روایت سے سن بھی رکھی ہو؛ لیکن سندعالی اور حضورﷺ سے قریب کی نسبت ان حضرات کے لیے ایک گوہر کمیاب تھی، وہ اس کی گردپیمائی کوایک بڑی سعادت سمجھتے تھے؛ پھرتابعین اور محدثین نامور اساتذہ کی تلاش میں پوری اسلامی دنیا میں چلتے پھرتے رہتے، محدثین کے عرض وسماع اور تحدیث وتدریس کے بڑے بڑے حلقے لگتے اور لوگ اطراف عالم سے پروانہ وار شمع حدیث کے گرد چلے آتے، حج کے موقع پر بھی بڑی بڑی ملاقاتیں ہوتیں، حضرت امام ابوحنیفہؒ نے مشہور تابعی مکحول (۱۱۸ھ) سے موسمِ حج میں ہی سند حدیث لی تھی۔ متحدہ ہندوستان میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی سلطنتِ علمی ہندوپاک، مصروشام اور بلخ وبخارا تک پھیلی ہوئی تھی اور علماء اور طلبہ چہاردانگِ عالم سے اس حلقہ حدیث میں کھنچے چلے آتے، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور حضرت مولانا محمدانورشاہ کشمیریؒ کی علمی شہرت نے تمام ہندوستان کے طالبینِ حدیث کوایک مرکز میں جمع کرلیا تھا اور پھر کتنے ہی نیرتاباں ہیں جوان سے مستنیرہوکر آفاق عالم پر پوری تابانی سے چمکے اور حق یہ ہے کہ اپنے عہد میں دنیانے ان کا مثل نہ دیکھا