انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قلعے ان قلعوں کی مختصر فہرست یہ ہے (۱)آل ساعدہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۱ اجم ذباب ۲ تبیس عنان کا تھا ۳ معرض ۴ واسطہ ابوخزیمہ کا تھا (۲)عبدالاشہل شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵ رعل ۶ عاصم فقارہ ۷ بسیر ۸ واقم (۳)خدرہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۹ اجرو لصہ ۱۰ واسط (۴)اینف شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۱۱ اجش قبا ۱۲ قبا ۱۳ ۱۴ نواحاں ۲قلعے تھے (۵)عبید شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۱۵ اطول مسجدخربہ ۱۶ اعماد مداداداوردنحیل میں ۴ قلعے ۱۷ جیس (۶)حرام شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۱۸ اعماد دیکھوعبید ۱۹ جاعس مساجد فتح ۲۰ مذاد (۷)واقف شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۲۱ مسجد فضیح ۲۲ ریدان (۸)اوس شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۲۳ جذمان (۹)سلم شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۲۴ خصی مسجد قبا (۱۰)حارثہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۲۵ خصی ۲۶ ریان ۲۷ مربع ۲۸ نیار نیار (۱۱)سواد شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۲۹ خیط مسجد قبلتین ۳۰ منیع (۱۲)زعوراء شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۳۱ راتج راتج (۱۳)زریق شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۳۲ ریان (۱۴)نجار شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۳۳ زاہریہ ۳۴ عریاں نضر ۳۵ فارع مفالہ ۳۶ قویرع غنم ۳۷ مشعط مسجد ابی جدیلہ ۳۸ میف مسجد بنودینار دینار ۳۹ واسط مازن (۱۵)جشم شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۴۰ سنح سنح (۱۶)سمیعہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۴۱ سعدان رکیح (۱۷)بیاضہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۴۲ سوید جماضہ یہ قلعہ سیاہ تھا ۴۳ سرارہ ۴۴ عنفرب روحا ۴۵ عقبان سنجہ ۴۶ لوی (۱۸)عطیہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۴۷ شاش مسجد قبا (۱۹)سالم شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۴۸ شماخ ۴۹ قواقل عصبہ (۲۰)ضبیعہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵۰ شنیف قبا (۲۱)زید بن مالک شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵۱ صباصی قبا ۱۴قلعے تھے (۲۲)حجببا شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵۲ ضیان عصبہ ۵۳ مستظل چاہ غرس ۵۴ ہجیم عصبہ (۲۳)خطمہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵۵ ضع ذرع چاہ ذرع ۵۶ نفاع چاہ عمارہ (۲۴)امیہ بن زید شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵۷ عذق (۲۵)غنم شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵۸ قواقل عصبہ (۲۶)حبلیٰ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۵۹ مزاحم (۲۷)مالک بن عجلان شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۶۰ مزدلفہ مسجد جمعہ (۲۸)وائل بن زید شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۶۱ موجا (۲۹)مجدعہ شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۶۲ بجیم عصبہ (۳۰)نامعلوم قلعے شمار نام قلعہ مقام وقوع کیفیت ۶۳ اشنف مسجد خربہ ۶۴ بئر الجیم عصبہ ۶۵ نجرج قبا ۶۶ بعبع ۶۷ بلجان شجرہ ۶۸ شبعان شمغ ۶۹ صرار حرہ شرقیہ ۷۰ صیصہ قبا ۷۱ عاصم ۷۲ عدنیہ عصبہ ۷۳ عزہ قبا مسجد قبا کا مینار اس جگہ پر تھا ۷۴ قبا ۷۵ کلب ۷۶ کنس حصین مہراس(قبا) ۷۷ کومۃ المدر ثمغ ۷۸ مراوح قبا ۷۹ واقم ۲قلعے تھے ۸۰ شیخان والج ۲قلعے تھے ۸۱ ازرق قناۃ قلعوں کے علاوہ انصار نے جابجادیواریں بنارکھی تھیں،جو سیلاب کے ساتھ دشمنوں کے لئے بھی مزاحم ہوتی تھیں،مدینہ کی سب سے بڑی دیوار وہ تھی جو شہر کے چاروں طرف کھنچی ہوئی تھی اورجس کو سو رمدینہ کہاجاتا،(خلاصۃ الوفا:۳۰۰) بنو بیاضیہ کے محلہ میں ایک دیوار تھی،اس کا نام حماضہ تھا،(خلاصۃ الوفا:۲۷۱) بنی زریق نے بھی ایک دیوار بنائی تھی (خلاصۃ الوفا:۸۸) ایک دیوار وہ تھی جو حرہ کی آتشزدگی میں جلی تھی (خلاصۃ الوفا:۲۶۸) ایک دیوار کا نام ربیع تھا اورانصار کا ایک معرکہ یہیں ہواتھا (ابن اثیر:۱/۵۰۴) معبس اورمفرس نامی بھی دو دیواریں تھیں جن کی آڑ میں چنددنوں تک انصار نے جنگ کی تھی (ابن اثیر:۵۰۷) ان دیواروں قلعوں اورگنجان آبادی کے وجہ سے مدینہ نہایت مستحکم اورناقابل تسخیر شہر بن گیا تھا،طبقات میں ہے۔ (طبقات ابن سعد،جلد۲،قسم۱،صفحہ:۴۸) کان سائر المدینۃ مشبکا بالبنیان فھی کالحصن مدینہ اپنی گنجان عمارتوں کی وجہ سے گویا ایک قلعہ معلوم ہوتا تھا۔ عبداللہ بن ابی کا قول ہے: فواللہ ماخرجنا منھا الی عدولناقط الا اصاب منھا ولاوخلھا علینا الا اصبنا منھم (زرقانی:۲/۲۶) یعنی ہم نے جب مدینہ سے نکل کر مقابلہ کیا تو شکست کھائی اور جب یہیں رہ کر لڑے تو ہمیشہ فتح ہوئی۔ آنحضرتﷺ نے اسی استحکام کی وجہ سے مدینہ کو "درع حصینہ" مضبوط زرہ کہا ہے۔ (طبقات،جلد۲،قسم۱،صفحہ:۲۶) چونکہ انصار میں ہمیشہ خانہ جنگی رہا کرتی تھی اس کے سوا مردوں کے دفن کرنے کا عرب میں قدیم دستور تھا،اس لئے انصار نے مدینہ میں مختلف قبرستان بنالئے تھے،ایک بنو ساعدہ کا قبرستان تھا،جس پر بعد کو مدینہ کا بڑا بازار آباد ہوا، (خلاصۃ الوفا:۲۰۷) عبدالاشہل کا قبرستان مغیرہ کے نام سے مشہور تھا،(خلاصۃ الوفا:۲۹۴) بقیع الغرقد جو آج بھی نہایت مشہور قبرستان ہے،پہلے ایک زرخیز خطہ تھا جس کے درختوں کو کاٹ کر قبرستان بنایا گیا، عمرو بن نعمان بیاضی اپنی قوم کے مرثیے میں کہتا ہے۔ (خلاصۃ الوفا:۲۶۳) خلت الدیار فدت غیر مسود این الذین عہدتھم فی غبطۃ ومن العناء تفردی بالسودر بین العقیق الی بقیع الغرقد بنوسلمہ کا بھی ایک جداگانہ قبرستان تھا،(مسند ابن حنبل:۳/۳۹۶) بنو خطمہ نے بھی ایک قبرستان بنایا تھا،جو غرش کی طرف واقع تھا،(طبقات،جلد۲،قسم۱،صفحہ:۴۰) اوربنو نجار کا قبرستان مسجد نبوی ﷺ کی جگہ پر تھا ؛چنانچہ جب آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو قبروں کو اکھڑواکر مسجد کی بنیاد ڈالی۔ (بخاری:۱/۵۶۰) سب سے اخیر ہم کو یہ دکھلانا چاہئے کہ انصار میں ہتھیاروں کا کیا بندوبست تھا، اس کے متعلق زیادہ تفصیل معلوم نہیں،صرف اس قدر معلوم ہے کہ مدینہ میں رقم نامی ایک جگہ تھی وہاں تیر بنتے تھے،یاقوت رقم کے تحت میں لکھتے ہیں: موضع بالمدینۃ تنست الیہ الرقمیات (معجم البلدان:۴/۲۷۱) یعنی رقم مدینہ میں ایک جگہ ہے جہاں کے تیر مشہور ہیں۔ مدینہ میں یہود کے پاس بھی ہتھیار سازی کے آلات تھے اور وہ ہتھیار بنایا کرتے تھے (طبری:۱۳۶۱) ممکن ہے کہ ضرورت کے وقت ان سے بھی قیمتاً لے لیتے ہوں۔ نظام مذہبی انصار چونکہ صاحب مذہب تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اس لئے انہوں نے اپنی مذہبی عبادت گاہیں بالکل جداگانہ بنائی تھیں اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مندروں میں بہت سے بت موجود رہتے تھے،جن میں سب سے قوی ہیکل مناۃ کا بت ہوتا تھاا ن مندروں کی نگرانی اوراہتمام ہر قبیلے کا کوئی ممتاز اورمذہبی شخص کرتا تھا؛چنانچہ بنو غنم ابن مالک بن نجار کے مندر کا عمرو بن قیس نجاری متولی تھا، ایک عہدہ کاہن کا تھا اورہر قبیلے میں ایک کاہن رہتا تھا،جس کو حبشی زبان میں طاغوت کہتے تھے،حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ عرب کے ہر قبیلہ میں کاہن ہوتا تھا،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غالباً انصار میں بھی یہ عہدہ تھا۔ ( بخاری:۲/۶۵۹،باب قولہ وان کنتم مرضی او علی سفر) ابن ہشام میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت وغیرہ اوربعض مسلمانوں میں کچھ نزاع ہوئی مسلمانوں نے آنحضرتﷺ کو حکم مانا، تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم حکام احکام جاہلیت سے فیصلہ کرائیں گے (سیرۃ ابن ہشام:۱/۲۹۳) اورحکام جیسا کہ صاف تصریح آئی ہے یہی کاہن ہواکرتے تھے۔ (بخاری حوالہ مذکور) انصار کے کاہنوں کے نام ہم کو معلوم نہیں ،منافقین کے ذکر میں ایک شخص کا زوی ابن حارث نام آیا ہے،یہ قبیلہ عمرو بن عوف سے تھا اس کو جب اس کے مسلمان بھائی نے مسجد سے نکالا،تو یہ فقرہ کہا تھا :"غلب علیک الشیطان"یعنی تجھ پر شیطان غالب آگیا (سیرۃ ابن ہشام :۲/۲۹۶) اورچونکہ شیطان کاہنوں کے پاس آیا کرتا تھا (بخاری:۲/۶۵۹) اس لئے یہ قیاس کچھ بے جا نہیں کہ زوی انصار کا کاہن تھا۔ انصار میں بت پرستوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی موجود تھے،لیکن چونکہ ان کی تعداد بہت کم تھی اس لئے ان کی کسی عبادت گاہ اوران کے مذہبی نظام کا کچھ پتہ نہیں ،قیاساً معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے ہم مذہبوں کے عبادت خانوں میں جاکر عبادت کرلیتے ہوں گے،مثلاً جو انصاری مذہب یہود کے پیرو تھے،وہ یہودیوں کے گرجا میں جاتے ہوں گے جو عیسائی ہوگئے تھے عیسائیوں کے چرچ میں وھلم جرّاً نظارت نافعہ مدینہ کے قرب وجوار میں چونکہ بہت سے چشمے وادی اورنہریں بہتی تھیں،اس لئے انصار نے مدینہ میں جا بجا بہت سے پل بنائے تھے؛چنانچہ ایک پل بنو حارث ابن خزرج کا تھا اوریہاں اوس وخزرج میں جنگ بھی ہوئی تھی، (ابن اثیر:۱/۵۰۴) ایک پل ذی ریش کے پاس تھا اورایک (خلاصۃ الوفا:۸۸) جسربطحان کے نام سے مشہور تھا۔ (خلاصۃ الوفا:۲۸۱) انصار پانی کی سبیلیں بھی رکھتے تھے اوراس کو نہایت ثواب کا کام سمجھتے تھے؛چنانچہ بنودینار میں ایک سبیل تھی،اس کا نام بقع تھا،(خلاصۃ الوفا:۲۶۳) اسلام لاکر حضرت سعد بن عبادہؓ سردار خزرج نے بھی ایک سبیل اپنی ماں کے ایصال ثواب کے لئے رکھی تھی۔ (مسند:۵/۲۸۵) متفرقات انصاراپنے نام پر اپنی آبادی کا نام رکھتے تھے مثلا ثعلبتہ العنقانے جس جگہ قیام کیا تھا، اس کا نام ثعلبیہ تھا، (معجم البلدان) مدینہ کے نواح میں ایک بستی کا نام روضۃ الخزرج تھا؛چنانچہ حفص اموس کا شعر ہے: فالملح بطرفک ھل تری اطعاھم بالبارقیۃ اوبروض الخزرج مدینہ کے محلوں میں بھی بعض محلے اپنے باشندوں کے نام سے مشہور تھے۔ انصار میں تاجپوشی کا رواج تھا اوررئیس تاج کے ساتھ کچھ پٹیاں بھی استعمال کرتا تھا،حضرت سعدؓ بن عبادہ نے ان دونوں باتوں کی طرف ایک حدیث میں اشارہ کیا ہے ؛چنانچہ فرماتے ہیں: لَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ ( بخاری:باب وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنْ الَّذِينَ،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،حدیث نمبر:۴۲۰۰) یعنی اس شہر کے باشندوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اس (ابن ابی) کو تاج پہنادیں اور اس کی سلطنت کی پٹی باندھیں۔ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: أَوْ لِأَنَّهُمْ يَعْصِبُونَ رُءُوسهمْ بِعِصَابَةٍ لَا تَنْبَغِي لِغَيْرِهِمْ يَمْتَازُونَ بِهَا (فتح الباری لابن حجر،باب ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب:۱۲/۴۳۳) یعنی رئیس کو منصب کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے سرپر ایک پٹی علامت کے طورپر ہوتی تھی جو دوسرے نہیں باندھ سکتے تھے۔ علامہ عینی تحریر فرماتے ہیں: (عمدۃ القاری:۸/۵۳۴) ای فیعممونہ کعمامۃ الملکوت یعنی پٹی باندھنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے بادشاہوں کا ساعمامہ باندھا جائے۔ مہمات سلطنت میں مشورہ کے لئے انصار نے ایک جداگانہ مکان تعمیر کیا تھا جو سقیفہ بنی ساعدہ کے نام سے مشہور تھا، (بخاری:۱/۳۳۳،باب ماجاء فی السقائف) یہ عمارت سعد بن عبادہ سردار خزرج کے مکان سے متصل تھی اورانہی کی ملکیت سمجھی جاتی تھی،انصار میں گو باہم نہایت خونریز جنگیں واقع ہوئی تھیں اور آپس میں سخت مخالفت تھی تاہم یہ کہیں نہیں پتہ چلتا کہ کسی زمانہ میں ان کے دو شوریٰ کے گھر قائم ہوگئے تھے،یعنی اوس وخزرج نے اپنے مشوروں کے لئے کبھی علیحدہ علیحدہ عمارتیں بنائی تھیں،آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد خلافت کی بحث اسی ثقیفہ میں پیدا ہوئی تھی اورانصار کا اجتماع اسی جگہ ہوا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ انصار میں اس قدر تمدن موجود ہونے کے باوجود عورتوں اورمردوں کی طہارت کا کوئی بندوبست نہ تھا،ہجرت نبوی کے زمانہ میں اوراس کے بعد جو کچھ حالت تھی،اس کو حضرت عائشہؓ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: فَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا۔۔۔۔۔ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي التَّبَرُّزِ قِبَلَ الْغَائِطِ فَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا (بخاری،باب لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ :حدیث نمبر:۴۳۸۱) میں ام مسطح کے ہمراہ مناصع چلی جو قضائے حاجت کی جگہ تھی۔۔۔ اوریہ اس زمانہ کا واقعہ ہے جب طہارت خانے ہمارے مکانوں کے قریب نہیں بنے تھے اورہماری حاجت اس معاملہ میں بالکل عرب قدیم جیسی تھی اورہم اپنے گھروں میں طہارت خانے کا بنانا ناپسند کرتے تھے۔ علامہ عینی ،مناصع کے تحت میں لکھتے ہیں: مواضع خارج المدینۃ کانوا یتبرزون فیھا (عمدۃ القاری:۸/۴۷۳) مدینہ کے باہر چند مقامات ہیں جہاں لوگ قضائے حاجت کے لئے جاتے تھے تاہم عرب میں جس قسم کا پردہ رائج تھا عورتیں اورمرد ان کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے،اسی لئے عورتیں رفع ضرورت کے لئے جاتیں تو رات کو جاتی تھیں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: وکناالاتخرج الالیلا الی لیل اورہم صرف رات کو رفع ضرورت کیلئے نکلتے تھے۔ زراعت انصار زراعت پیشہ تھے اوریہ ان کے نبطی ہونے کا اثر تھا،عرب کی آبادی دوحصوں میں منقسم تھی،عرب حضر اورعرب بدو، بنواسمٰعیل میں دونوں قسم کے قبائل موجود تھے،نبطی اورقریش مکہ حضری عرب تھے،بخلاف اس کے عرب کے دیہاتوں اورجنگلوں میں جو خاندان آباد تھے وہ بدویا نہ زندگی بسر کرتے تھے،انصار چونکہ نبطی الاصل تھے،اس لئے ابتداء ہی سےزراعت کی طرف راغب تھے ؛چنانچہ یمن جاکر انہوں نے اس قدر باغات اوراراضی پیدا کی کہ اولاد قحطان میں بھی یمن کے حاکم ہونے کے باوجود کسی کے پاس نہ تھی،(معجم البلدان:۷/۳۵۵)وہاں سے نکل کر جہاں جہاں سکونت اختیار کی وہ تمام پرفضا اورزرخیز مقامات تھے (صفۃ جزیرۃ العرب:۲۰۷) یثرب آکر بھی انہوں نے اسی طریقہ پر بودوباش کی یعنی کاشتکاری کرتے تھے جو تقریبا ًشمالی عرب کی تمام آبادی کا واحد ذریعہ معاش تھا؛چنانچہ خیبر وغیرہ کے متعلق صحاح میں اس قسم کی بہت سی تصریحیں ملتی ہیں۔ ہم نے ابھی کہا ہے کہ انصار میں زراعت کا خیال نبطی الاصل ہونے کے سبب سے تھا اس کے ثبوت میں کہ نبطی زراعت پیشہ تھے ہم ذیل کی روایات پیش کرتے ہیں: عرب مورخین کو چونکہ نبطیوں کا زیادہ علم نہیں،نیزوہ ان کو اختلافِ معاشرت اورلہجہ وزبان کے لحاظ سے غیر عرب سمجھتے ہیں، اس لئے اپنی تاریخوں میں ان کا ذکر بہت کم کرتے ہیں تاہم نبط کا لفظ ان کے ہاں بھی بالکل نامانوس نہیں یاقوت کا بیان ہے: اما لنبط فکل لم یکن راعیا اورجند یا عندالعرب (معجم البلدان حوالہ مذکور) یعنی نبط عرب کے نزدیک ہر وہ شخص ہے جو چرواہا یا سپاہی نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے نزدیک نبط کے مفہوم ہی میں متمدن زندگی داخل تھی البتہ مورخین یونان نے سیاسی تعلقات کی بناء پر نبطیوں کے حالات زیادہ تفصیل سے بیان کئے ہیں،ایک مورخ ان کے مختلف حالات لکھتا ہے کہ (Gold Miners) ملک کا بڑا حصہ سرسبز ہے۔ اوریہ ظاہر ہے کہ ملک کی سر سبزی زراعت کے بغیر ناممکن ہے۔ نبطیوں کی زراعت کے ثبوت کے بعد اب انصار کی کاشتکاری کا حال سنو۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں۔ (بخاری:۱/۲۲،باب حفظ العلم) وان اخواننا من الانصار کان یشغلھم العمل فی اموالھم اور ہمارے انصاری بھائیوں کو ان کی زمینوں کا کام طلب علم سے بازرکھتا تھا۔ حضرت رافع بن خدیجؓ کہتے ہیں۔ (بخاری:۱/۳۱۲،باب قطع الشجر والنحل) کنا اکثر اھل المدینۃ مزدرعا ہم مدینہ میں سب سے بڑے کاشتکار تھے۔ حضرت انسؓ،حضرت ابوطلحہؓ کے متعلق بیان کرتے ہیں: (بخاری:۲/۶۵۴،باب قولہ لن تنالؤ البر حتی تنفقوامماتحبون) ابوطلحۃ اکثر انصاری بالمدینہ نخلا انصار میں ابو طلحہ سب سے زیادہ نخلستانوں کے مالک تھے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی جزئیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار کلیۃ زراعت پیشہ تھے اورچونکہ مدینہ طبعی طورسے سیر حاصل مقام تھا،اس لئے وہاں کی آبادی کے لئے کاشتکاری اوربھی ضروری ہوگئی تھی؛چنانچہ زراعت کی کثرت اورپیداوار کی صلاحیت کی وجہ سے مدینہ کے ہر چہار طرف جھنڈ کے جھنڈ سیکڑوں کھجور کے درخت نظر آتے تھے۔ (خلاصۃ الوفا:۲۷۳) چونکہ انصار بالکل بدوی اوروحشی نہ تھے؛بلکہ ان میں کسی قدر تمدن بھی تھا اس لئے ان میں زمین کی کاشت کے متعلق کچھ اصول وآئین رائج تھے،مثلاً وہ جب تک یہود کے زیر اثر رہے،ان کو باقاعدہ خراج ادا کرتے تھے،(معجم البلدان:۷/۴۲۶) اسی طرح جب خود مدینہ کے مالک ہوئے تو ہر خاندان کے حصہ میں کم وبیش زمین آئی،جن لوگوں کے پاس زمین کم تھی وہ بڑے زمینداروں سے جو تنے بونے کے لئے کھیت لیتے تھے۔(صحیح مسلم:۱/۶۱۷) اس زمانہ میں چونکہ مدینہ میں کوئی سکہ نہ تھا اس لئے کاشتکار کو زمین دیتے وقت یہ بتلادیا جاتا تھا کہ کھیت میں اتنا حصہ تمہارا اوراتنا زمیندار کا حق ہوگا، اس میں بسا اوقات کاشتکارکا نقصان ہوتا تھا ؛کیونکہ کبھی ایسا ہوتا کہ کھیت کے ایک حصہ میں پیداوار ہوتی اور دوسراحصہ بالکل خالی رہتا،آنحضرتﷺ نے یہ دیکھ کر اس بے رحمانہ رسم کو بالکل اٹھادیا۔ (بخاری:۱/۳۱۳،باب مایکرہ من الشروط فی المزارعۃ) مدینہ کی پیداوار میں کھجور سب سے زیادہ مشہور ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ وہ جس افراط اورتنوع کے ساتھ پیدا ہوتی تھی،ان کی نظیر عرب کے دوسرے خطوں میں مشکل سے مل سکے گی؛چنانچہ بعض لوگوں نے یہ تصریح کی ہے کہ وہاں کھجور کی ایک سو بیس قسمیں پیدا ہوتی تھیں۔ (زرقانی:۲/۹۵) قسموں کی یہ تعداد خواہ صحیح نہ ہو؛لیکن اس میں شبہ نہیں کہ کثیر یقیناً تھی۔ تجارت انصار کی سیرت میں یہ عنوان ترتیباسب سے اخیر درجہ پر ہے،اس لئے ہم بھی اس کو اخیر میں لکھتے ہیں، انصار تجارت بھی کرتے تھے اوراس کے لئے خود مدینہ میں تمام سامان مہیا تھا یعنی بازار موجود تھے،مدینہ میں یہودیوں کے کئی بازار تھے جن میں قینقاع سب سے زیادہ مشہور ہے انصار اس میں جاتے تھے،یہ بازار سال میں کئی مرتبہ لگتا تھا اوریہاں عرب کے مشہور بازاروں کی طرح شعراء جمع ہوکر اپنے اپنے اشعار سناتے تھے ؛چنانچہ حضرت حسانؓ اورنابغہ سے یہیں ملاقات ہوئی تھی۔ (خلاصۃ الوفا:۲۸۱) لیکن انصار نے صرف اسی حدتک قناعت نہیں کی ؛بلکہ انہوں نے اپنے لئے یہودیوں سے علیحدہ چند بازار قائم کئے؛چنانچہ مدینہ کا سب سے بڑا بازار وہ تھا جو مہروز میں لگتا تھا،(خلاصۃ الوفا:۲۰۰) اورجس کے قریب بنو ساعدہ کی آبادی تھی،(خلاصۃ الوفا:۸۸) ایک بازار قبا میں تھااور غالباً عمرو بن عوف کا تھا یہ بازار قینقاع کے بعد لگا کرتا تھا،(ابن اثیر:۱/۴۹۴) ایک بازار ام العیال نامی ایک چشمہ کے کنارے لگتا تھا،(خلاصۃ الوفا:۲۶۰)ایک بازار مسجد الرایہ کے قریب تھا،یہ مدینہ کا قدیم بازار تھا اوراس کی پشت پر ثنیۃ الوداع کی پہاڑیاں واقع تھیں،(خلاصۃ الوفا:۲۶۶) ایک بازار کا نام مزاحم تھا اور یہ اوائل اسلام تک لگتا تھا،(خلاصۃ الوفا:۲۹۸) ایک بازار بقیع میں تھا۔ (بخاری:۱/۲۸۵) چونکہ مدینہ میں کوئی سکہ نہ تھا اس لئے تجارت میں غالباً ایک چیز سے دوسری چیز کا تبادلہ کرتے ہوں گے ؛چنانچہ کھجور کے متعلق بہت سی حدیثوں میں اس کی تصریح ملتی ہے، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں: كُنَّا نُرْزَقُ تَمْرَ الْجَمْعِ وَهُوَ الْخِلْطُ مِنْ التَّمْرِ وَكُنَّا نَبِيعُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَاعَيْنِ بِصَاعٍ وَلَا دِرْهَمَيْنِ بِدِرْهَمٍ (بخاری، كِتَاب الْبُيُوعِ ،بَاب بَيْعِ الْخِلْطِ مِنْ التَّمْرِ:حدیث نمبر:۱۹۳۸) ہم کو اچھے برے ہر قسم کے چھوہارے ملتے تھے ہم برے چھوہاروں کے دو صاع کو اچھوں کے ایک صاع کے عوض فروخت کرڈالتے تھے ؛لیکن نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا کہ دوصاع ایک صاع کے معاوضہ میں اوردو درہم ایک درہم کے معاوضہ میں نہیں دئیے جاسکتے۔ خریدوفروخت کے مختلف طریقے رائج تھے ایک طریقہ یہ تھا کہ پھلوں کو ۲،۳ سال کے لئے بلا وزن اور مقدار متعین کئے بیچ ڈالتے تھے،آنحضرتﷺ نے اس کو اس شرط پر جائز رکھا کہ وزن اور مقدار معلوم رہنا چاہیے۔ (بخاری:۱/۲۹۵،باب السلم فی کیل معلوم) دوسرا طریقہ یہ تھا کہ خریدار چیز کے مالک کا دن یا رات کو کپڑا چھولیتا تھا اوریہی بیع سمجھی جاتی تھی،تیسری صورت یہ تھی کہ بائع ومشتری دونوں ایک دوسرے کی طرف اپنے کپڑے پھینک دیتے تھےا ور پھر گفتگو کی ضرورت نہ باقی رہتی تھی۔ (مسلم:۱/۶۰۱) ایک صورت یہ تھی کہ کھجور درختوں پر ہی ہوتے تھے اور ان کا اندازہ کرکے اس کے عوض دوسرے پھل خریدے جاتے تھے انگور بھی اسی طرح بیچتے تھے اوراس کے معاوضہ میں کشمکش لیتے تھے،اس کو مزابنہ کہتے ہیں۔ (بخاری:۱/۲۹۱،باب بیع المزانیہ دی بیع اقمر) ایک طریقہ یہ تھا کہ کھیت کرایہ پر اٹھائے جاتے تھے اور مالک شرط کرلیتا تھا کہ نہروں اورنالیوں کے آس پاس کی زمین ہماری اورباقی تمہاری ہوگی۔ (مسلم:۱/۶۱۷،باب کراء الارض بالذہب والورق) ایک صورت یہ تھی کہ خریدار موجود نہ ہوتا اورچیز اس کے لئے رکھ لی جاتی اوراس کی ملک سمجھی جاتی تھی۔ (مسلم:۱/۶۰۳،باب تحریم بیع الحاضرہ) ایک طریقہ یہ تھا کہ مال خرید کر مشتری اسی جگہ فروخت کرڈالتا اوراس سے جو دام ملتے وہ بائع کو دیتا۔ (ہدایہ:۳/۳۸) ایک صورت روپے پیسے کے لین دین کی تھی اور یہ امرائے انصار کرتے،مثلاً زید ابن ارقم (بخاری:۱/۵۶۱) کعب بن مالک (مسلم:۱/۶۲۲) ابوقتادہ (مسلم،:۱/۶۲۴) وغیرہ، اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ ایک مقررہ میعاد کے لئے درہم لیتے تھے،آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے ادھار نہیں۔ (بخاری، بَاب كَيْفَ آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَصْحَابِه،حدیث نمبر:۳۶۴۶) بعض انصار شراب کی تجارت کرتے تھے؛چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک دن خطبہ میں فرمایا کہ خدانے شراب کا ذکر کیا ہے اورامید ہے کہ اس کے متعلق کچھ نازل ہوکر رہے گا،اس لئے تم میں سے جس کے پاس شراب ہو،اس کو فروخت کرکے نفع حاصل کرے، حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ چند روز بھی نہ گذرے تھے کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی اورآنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اب اس کے پینے اورفروخت کرنے کی قطعی ممانعت ہے،چنانچہ لوگوں نے شراب کو مدینہ کی گلیوں میں بہادیا۔ (مسلم:۱/۶۲۸) ان باتوں کے بعد اب اس ضمن میں کچھ حالات اورسن لینے چاہیں،وہ خرید وفروخت میں کثرت سے قسمیں کھاتے تھے،حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس کو منع فرمایا،(مسلم:۱/۶۴۱،باب النبی عن الحلف فی البیع) بعض لوگ دھوکا دیتے تھے؛چنانچہ حبان بن منقذ کے متعلق ہے کہ وہ اکثر دھوکا کھاتے تھے،آنحضرتﷺ نے فرمایا؛کہ جب کچھ بیچو تو کہہ دیا کرو کہ اس میں دھوکا نہ چلے گا اورمیں چاہونگا تو ۳ دن میں اپنی چیز واپس لے لونگا۔ (ہدایہ:۳/۲۲) یہ روایت صحیح بخاری،مسلم اورابوداؤد میں بھی ہے،لیکن اس میں حبان کا نام نہیں آیا ہے۔ صنعت وحرفت جہاں تک قرائن سے پتہ چلتا ہے،انصار میں صنعت وحرفت کا بالکل رواج نہ تھا یا تھا تو شاذونادر تھا؛چنانچہ ابو شعیب انصاری کے متعلق مذکور ہے کہ ان کا غلام قصاب تھا،(بخاری:۱/۳۷۹) ایک انصاریہ کے غلام کو نجاری آتی تھی؛چنانچہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے لئے اس سے ایک منبر بنوایا تھا،جو مسجد نبوی میں رکھا گیا،اس سے پہلے مسجد نبوی میں منبر نہ تھا،(بخاری:۲۰۱،باب النجار) قروہ بن عمروبیاضی کا غلام ابوہند حجا م تھا۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۳۷۱) تعلیم انصار میں جہالت کی عمومیت کے ساتھ کچھ تعلیمیافتہ لوگ بھی موجود تھے،جو عربی میں لکھ پڑھ لیتے تھے؛چنانچہ اسلام کے اوائل میں حسب ذیل حضرات لکھنا جانتے تھے،سعد بن ؓعبادہ منذرؓ بن عمرو، ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ، رافع بن مالکؓ، اسیدؓ بن حضیر، معن بن عدی البلوی،بشیر ؓبن سعد، سعدؓ بن ربیع، اوسؓ بن خولی،عبداللہ بن ابی منافق،ان میں زید ؓبن ثابت عربی کے ساتھ عبرانی میں بھی خط وکتابت کرتے تھے، جو شخص کتابت کے ساتھ تیر اندازی اورتیراکی بھی سیکھتا اس کو کلمہ اورکامل کا خطاب دیا جاتا تھا؛چنانچہ جاہلیت قدیم میں دو شخص ان کمالات کے جامع ہوئے تھے،سو یدبن صامت اورحضیر کتائب (فتوح البلدان:۴۷۹) اسلام کے زمانہ میں بھی رافعؓ بن مالک، سعد ؓ بن عبادہ، اسیدؓ بن حضیر،عبداللہ بن ابی، اوسؓ بن خولی، انہی خطابات سے مخاطب تھے۔