انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبادات، ابواب الصلوٰاۃ پابندی جماعت اگرچہ عورتوں پرجماعت کی پابندی فرض نہیں ہے اور اس بناپربعض غیور صحابہ جماعت میں اپنی عورتوں کی شرکت کوپسند بھی نہیں کرتے تھے؛ تاہم بعض صحابیات پراس کا کچھ اثر نہیں پڑتا تھا اور وہ مناسب اوقات میں نماز باجماعت ادا فرماتی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بی بی برابرعشاء اور فجر کی نماز میں شریک جماعت ہوتی تھیں، ایک بار ان سے لوگوں نے کہا کہ تمھیں معلوم ہے کہ عمررضی اللہ عنہ اس کوپسند نہیں کرتے؛ پھرکیوں ایسا کرتی ہو، بولیس توپھرروک کیوں نہیں دیتے۔ (بخاری، بَاب هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدْ الْجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنْ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ) نمازِ جمعہ عورتوں پراگرچہ جمعہ فرض نہیں ہے تاہم صحابیات اس دن کی بہت عزت کرتی تھیں اور اس کی برکتوں میں عمدہ طریقوں سے شریک ہوتی تھیں، ایک صحابیہ تھیں جواپنے کھیتوں میں چقندر بودیا کرتی تھیں جب جمعہ کا دن آتا تھا تواس کوپکاکر نمازِ جمعہ کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کوکھلاتی تھیں۔ (بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ﴿ فَإِذَاقُضِيَتْ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ﴾ ) نمازِ اشراق نمازِ اشراق اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے تمام عمر میں صرف ایک بار پڑھی تھی؛ لیکن بعض صحابیات رضی اللہ عنھن نے اس کا التزام کرلیا تھا؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکبھی نمازِ اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا؛ لیکن میں خود پڑھتی ہوں؛ کیونکہ آپ بہت سی چیزوں کوپسند فرماتے تھے؛ لیکن اس پرعمل نہیں کرتے تھے کہ اُمت پرفرض نہ ہوجائیں۔ (مسلم، كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ) تہجد ونماز شبانہ صحابہ کرام تہجد پڑھتے تھے تواس میں صحابیات بھی شریک ہوتی تھیں؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کوتہجد کے لیے اپنے اہلِ وعیال کوجگاتے تھے، تویہ آیت پڑھتے تھے: وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَانَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى (طٰہٰ:۱۳۲۔ مؤطا، کتاب الصلوٰۃ، باب فی الصلوٰۃ اللیل) انہوں نے رات کے تین حصے کردیئے تھے ایک میں خود، دوسرے میں ان کی بیوی اور تیسرے میں ان کا خادم تہجد پڑھتا تھا اور ایک دوسرے کوجگاتے تھے۔ (بخاری، كِتَاب الْأَطْعِمَةِ) ابواب الزکوٰۃ والصدقات زیور عورتوں کوسب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں لیکن صحابیات رضی اللہ عنہا کوخدا کی مرضی ان سے بھی زیادہ عزیز تھی ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا اپنی لڑکی کولیکر حاضر ہوئیں لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے موٹے موٹے کنگن تھے آپ نے ان کودیکھ کرفرمایا کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ بولیں نہیں! فرمایا: تمھیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ خدا قیامت کے دن اس کے بدلے اس کے ہاتھ میں آگ کے کنگن پہنائے؛ انہوں نے یہ سناتو فوراً کنگن آپ کے سامنے ڈال دیئے کہ یہ خدا اور خدا کے رسول کے ہیں۔ (ابوداؤد، كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب الْكَنْزِ مَاهُوَوَزَكَاةِ الْحُلِيِّ) ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ عید میں صدقہ وخیرات کی ترغیب دی صحابیات رضی اللہ عنھن کا مجمع تھا حضرت بلال رضی اللہ عنہ دامن پھیلائے ہوئے تھے اور صحابیات رضی اللہ عنھن اپنے کان کی بالیاں گلے کے ہار اور انگلیوں کے چھلے تک پھینکتی جاتی تھیں (ابوداؤد،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب الْخُطْبَةِ قَائِمًا، بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِيدِ) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس صرف ایک ہی لونڈی تھی انہوں نے اس کوفروخت کیا اور روپیہ گود میں لے کربیٹھیں اسی حالت میں ان کے شوہر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آئے او رکہا کہ روپیہ مجھے دیدو بولیں میں نے تواس کوصدقہ کردیا۔ (مسلم، كِتَاب الْآدَابِ،بَاب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَاأَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) اعزہ واقارب پرصدقہ کرنا ایک بار حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کی بیبی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ تم نادار ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اگرآپ اجازت دیں تومیں صدقہ کرنا چاہتی ہوں؛ تمھیں کودوں لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ہی جاؤ وہ آئیں توآستانِ مبارک پراسی غرض سے ایک دوسری صحابیہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں دونوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے پوچھوایا کہ دوعورتیں اپنے شوہروں اور چند یتیموں پرجوان کی کفالت میں ہیں صدقہ کرنا چاہتی ہیں کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا اُن کودودوثواب ملیں گے ایک قرابت کا دوسرا صدقہ کا۔ ایک بار حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرمیں ابوسلمہ کے لڑکوں پرصدقہ کروں تومجھ کوثواب ملے گا میں ان کوچھوڑ نہیں سکتی؛ کیونکہ وہ میرے لڑکے ہیں آپ نے فرمایا ہاں تمھیں ثواب ملے گا۔ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ماں کوایک لونڈی صدقۃً دی تھی ماں کا انتقال ہوگیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت دریافت کیا آپ نے فرمایا صدقے کا ثواب تمھیں مل چکا اور اب وہ لونڈی تمہاری وراثت میں داخل ہوگئی۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب من تصدق بصدقہ ثم ورثہا) محتاج کی حسب حاجت امداد صحابیات موت وحیات دونوں حالتوں میں اہلِ حاجت کی اعانت وامداد فرماتی تھیں غزوۂ اُحد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آئیں اور اپنے بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سیدالشہداء رضی اللہ عنہ کے کفن کے لیے دوکپڑے لائیں؛ لیکن ان کی لاش کے پاس ایک انصاری کی لاش بھی اسی طرح بغیر کفن کے نظر آئی دل میں شرمائیں کہ حمزہ دوکپڑوں میں کفنائے جائیں اور انصاری کے لیے ایک کپڑا بھی نہ ہو، ناپاتوایک کا قدبڑا نکلا مجبوراً کپڑے پرقرعہ ڈالا گیا اور جوکپڑا جس کے حصہ میں پڑا وہ اسی میں کفنایا گیا۔ (مسنداحمد بن حنبل:۱/۱۶۵)