انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حیات طیبہ۶۰۰ء حضرت زینبؓ کی ولادت آپﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کی ولادت ہوئی، اہل ِسیرکا اتفاق ہے کہ لڑکیوں میں سب سے بڑی تھیں، بعد بعثت وہ اپنی والدہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہی ایمان لائیں،حضرت زینبؓ کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو ا لعاص ؓ بن ربیع سے ہوئی، ابو العاص ؓ کی والدہ ہالہ بنت خویلد حضرت خدیجہؓ کی سگی بہن تھیں، ابو العاص حضرت زینبؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور حضور اکرم ﷺبھی ابو العاص کو بہت چاہتے تھے ، ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا: اس نے جو بات مجھ سے کہی اسے سچ کر دکھایا ، بعثت کے بعد کفار نے ابوالعاص پر بہت دباؤ ڈالا کہ حضرت زینبؓ کو طلاق دے دیں ؛لیکن انہوں نے انکار کر دیا،۲ ہجری میں غزوہ بدر کے موقع پر حضرت زینبؓ اپنے شوہر کے ساتھ مکہ میں تھیں ، ان کے شوہر مشرکین کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے مگر مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، ان کی رہائی کے لئے فدیہ دینا لازمی تھا تو حضرت زینبؓ نے وہ قیمتی ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ ؓ نے انہیں جہیز میں دیا تھا ، اس ہار کو دیکھ کر حضور ﷺ کو حضرت خدیجہؓ یاد آ گئیں اور آپﷺ پر رقت طاری ہو گئی، صحابہ کرامؓ نے اس ہار کو لَوٹا دیا اور حضرت زینبؓ کو مدینہ بھیجنا چاہا، جب حضرت زینب ؓ مکہ سے نکل کر مدینہ جارہی تھیں تو راستہ میں کفّار نے انکا تعاقب کیا اور ہبار بن اسود نے اُن کے اونٹ کو نیزہ سے مارا جس سے حضرت زینبؓ نیچے گر گئیں اور ان کا حمل ساقط ہو گیا ، کچھ دنوں بعد وہ مدینہ آگئیں؛لیکن ابو العاص مکہ ہی میں رہے اور حضرت زینبؓ کی یاد میں بے قرار رہنے لگے ،(۶ ہجری یا ۷ ہجری بہ اختلاف روایت) حضرت زینبؓ نے ان کو بہ حالتِ شرک چھوڑا تھا اس لئے دونوں میں باہم تفریق ہو گئی تھی، جب وہ مدینہ آئے تو حضرت زینبؓ دوبارہ ان کے نکاح میں آئیں، ترمذی میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جدید نکاح نہیں ہوا ؛لیکن دوسری روایت میں جدید نکاح کی صراحت ہے، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی روایت ہے کہ اگرچہ اسناد کے لحاظ سے دوسری روایت پر ترجیح ہے؛ لیکن فقہا نے دوسری روایت پر عمل کیا ہے اور حضرت عبداللہؓ بن عباس نے یہ تاویل کی ہے کہ نکاح جدید کے مہر اورشرائط وغیرہ میں کسی قسم کا تغیر نہ ہوا ہو گا اس لئے حضرت عبداللہؓ بن عباس نے اس کو نکاح اول سے تعبیر کیا ورنہ بعد تفریق نکاح ثانی ضروری ہے (شبلی نعمانی سیرۃ النبی جلد اول ) ابوالعاص کے اسلام لانے کے چندہی روز بعد حضرت زینبؓ نے (۸ ہجری میں)وفات پائی، آنحضرت ﷺ نے اپنا تہبند ان کے کفن کے لئے دیا اور خودنماز جنازہ پڑھائی، ابو العاصؓ کی مدد سے انھیں قبر میں اُتارا ور ارشاد فرمایا کہ وہ میری سب سے افضل لڑکی تھی جو میری محبت میں ستائی گئی، ابوالعاصؓ کا انتقال ۱۲ ہجری میں ہوا۔ حضرت زینبؓ سے ایک لڑکی اُمامہ ؓ اور ایک لڑکا علیؓ تولد ہوئے، اُمامہ (نواسی) آنحضرت ﷺ کو بے حد محبوب تھیں، علامہ شبلی نے صحاح کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضور ﷺ ان کو کاندھے پر بٹھا کر نماز پڑھتے، جب رکوع میں جاتے تو اتار دیتے، جب سجدے سے سر اٹھاتے تو پھر کندھے پر بٹھا لیتے (شبلی نعمانی ، سیرت النبی جلد اول) ایک بارمدینہ میں ایک سونے کا ہار ہدیہ میں آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اسے اپنی محبوب ترین اہل کو دوں گا، عام خیال حضرت عائشہ ؓ کی طرف گیا ؛لیکن آپﷺنے اُمامہ کو بلا کر خود اپنے دست ِمبارک سے ان کے گلے میں ہار ڈالا، ان کی شادی حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ سے ہوئی اور حضرت علیؓ کی وفات کے بعد مغیرہ بن نو فل سے نکاح ہوا اور ان ہی کے پاس وفات پائی، ان سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ تھا؛ لیکن بعض روایتوں میں ہے کہ اُمامہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حضرت زینبؓ کے صاحبزادہ علیؓ کو حضور ﷺ اپنے ساتھ لے آئے اور وہ حضور ﷺ ہی کی کفالت میں پروان چڑھے ، فتح مکہ کے روز جب حضور اکرم ﷺمکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو علی آپﷺ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے، ایک روایت کے مطابق علی بچپن میں وفات پا گئے ؛لیکن عام روایت ہے کہ سنِ رُشد کو پہنچے ، ابن عساکر نے لکھا ہے کہ جنگ یر موک میں شہادت پائی (۱۵ ہجری) (قاضی سلیمان منصور پوری ، رحمتہ للعالمین)