انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** واثق باللہ واثق باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید بن مہدی بن منصور عباسی کی کنیت ابوجعفر یاابوالقاسم تھی، اس کا اصل نام ہارون تھا، یہ مکہ کے راستے میں قراطیس نامی اُم ولد کے پیٹ سے ۲۰/شعبان سنہ۱۹۶ھ میں پیدا ہوا تھا، اس کواس کے باپ معتصم باللہ نے اپنا ولی عہد بنایا تھا، معتصم کی وفات کے بعد تختِ خلافت پربیٹھا، یہ نہایت خوبصورت، گوری چٹی رنگت کا آدمی تھا، داڑھی گھنی اور خوبصورت تھی، اس کی رنگت میں سفیدی کے ساتھ زردی بھی جھلکتی تھی، آنکھوں کی سفیدی میں سیاہ تل بھی نمودار ہوتا تھا، یہ بہت بڑا شاعر اور ادیب تھا، عربی ادب میں وہ مامون کا ہم پلہ بلکہ اس سے بھی فائق تھا؛ مگرفلسفہ اور علومِ حکمیہ میں مامون سے کمتر تھا، اس نے مامون الرشید کی علمی مجلسیں دیکھی تھیں، اس کوعلم وفضل کا شوق تھا؛ اسی لیے اس کومامون صغیر یامامون ثانی کہتے تھے، واثق کوعربی اشعار اس قدر یاد تھے کہ خلفاءِ عباسیہ میں کسی کواتنے اشعار یاد نہ تھے، اپنے باپ کی طرح کھانے پینے کا اس کوبھی بہت شوق تھا، بہت پرخور، خوش خور تھا، شاعروں اور ادیبوں کوبڑے بڑے انعام وصلے دیتا تھا، اہلِ علم کی قدر کرتا تھا اور ان کے ساتھ تعظیم وتکریم کا برتاؤ ضروری سمجھتا تھا؛ مگرخلقِ قرآن کے مسئلہ کا خبط اپنے باپ سے وراثت میں پایا تھا اور اس معاملہ میں یہاں تک غلوا کیا تھا کہ اکثر بڑے بڑے علماء کوثواب سمجھ کر اس نے اپنے ہاتھ سے قتل کیا (کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ایک طرف واثق باللہ قرآن کریم کومخلوق مان کرایک صریح غلطی اور گمراہی اختیار کرچکا تھا، دوسری طرف اس نے بہت سے بڑے علماء کوقتل کرنے جیسا جرم اور گناہِ کبیرہ کیا)۔ آخر عمر میں ایک ایسا وقاعہ پیش آیا کہ مسئلہ خلقِ قرآن کے متعلق اس نے اپنی سرگرمی کم یابالکل موقوف کردی تھی، یہ وہ واقعہ تھا کہ ابوعبدالرحمن عبداللہ بن محمد ازدی جوامام ابوداؤد اور نسائی رحمہمااللہ کے استاد تھے، مسئلہ خلقِ قرآن کے متعلق مخالف عقیدہ رکھنے کے سبب سے گرفتار ہوکر آئے اور دربار میں پیش ہوئے، وہاں قاضی احمد بن ابی داؤد سے جومعتصم کے زمانے سے دربار میں وزیراعظم کے برابر مرتبہ رکھتے اور خلقِ قرآن کے قائل تھے، ابوعبدالرحمن نے اُن سے سوال کیا کہ تم پہلے مجھ کویہ بتاؤ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اس کا علم تھا یانہیں کہ قرآن خلق ہے؟ قاضی احمد نے کہا کہ ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواس کا علم تھا (قاضی احمد بن ابی داؤد نے یہ بالکل غلط بات کہی؛ اگرجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس مسئلہ کا علم تھا توپھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کواس بارے میں رہنمائی کرنی چاہیے تھی) ابوعبدالرحمن نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوقرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کی تعلیم دی یانہیں؟ قاضی احمد نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تواس کے متعلق کوئی حکم نہیں فرمایا۔ ابوعبدالرحمن نے کہا کہ جس عقیدہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوتعلیم نہیں دی اور باوجود علم رکھنے کے لوگوں کواس کے ماننے پرمجبور نہیں کیا، تم اس کے متعلق لوگوں کی خاموشی کوکیوں کافی نہیں سمجھتے؟ اور ان کوکیوں اس کے ماننے اور اقرار کرنے پرمجبور کرتے ہو؟ یہ سنتے ہی واثق باللہ چونک پڑا اور دربار سے اُٹھ کراپنے محل سرا میں چلا گیا اور چار پائی پرلیٹ کربار بار یہ کہتا رہا کہ جس معاملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، ہم اس میں سختی کررہے ہیں؛ پھرحکم دیا کہ ابوعبدالرحمن کوآزاد کرکے اس کے وطن میں بہ آرام واپس پہنچا دو اور تین سودینار سرخ بہ طورِ انعام دے دو۔