انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوات ودیگر حالات غزوات مدینہ میں سب سے پہلا معرکہ بدر کا پیش آیا،حضرت عمر ؓ اس معرکہ میں رائے ،تدبرجانبازی اورپامردی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وبازو رہے،عاص بن ہشام ابن مغیرہ جو رشتہ میں ان کا ماموں ہوتا تھا،خود ان کے خنجرخاراشگاف سے واصل جہنم ہوا (ابن جریر : ۵۰۹،واستیعاب ترجمہ عمر بن الخطاب) یہ بات حضرت عمر ؓ کی خصوصیات میں سے ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں قرابت ومحبت کے تعلقات سے مطلقاً متاثر نہیں ہوتےتھے،آپ کے ہاتھوں عاص کا قتل اس کی روشن مثال ہے۔ بدر کا میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا، غنیم کے کم وبیش ستر آدمی مارے گئے اور تقریباً اسی قدر گرفتار ہوئے ؛چونکہ ان میں سے قریش کے اکثر بڑے بڑے معزز سردار تھے، اس لئے یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان کے ساتھ کیاسلوک کیا جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ ؓ سے رائے لی،لوگوں نے مختلف رائیں دی،حضرت ابوبکر ؓ کی رائے ہوئی کہ فدیہ لے کرچھوڑدیا جائے، حضرت عمر ؓ نے اختلاف کیا اور کہا کہ ان سب کو قتل کردینا چاہئے،اوراس طرح کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیز کو قتل کرے،علی عقیل کی گردن ماریں اورفلاں جومیراعزیز ہےاس کاکام میں تمام کردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے پسندکی اورفدیہ لے کر چھوڑدیا، بارگاہ الہی میں یہ چیز پسند نہ آئی اس پر عتاب ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی: مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ "کسی پیغمبر کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ خونریزی نہ کرلے۔" حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر ؓ نے گریہ وزاری کی۔ (صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیرباب الامداد بالملائکۃ فی غزوہ بدر واحباحتہ الغنائم) واقعہ بدر کے بعد خود مدینہ کے یہودیوں سے لڑائی ہوئی اور ان کو جلاوطن کیا گیا اسی طرح غزوہ سویق اوردوسرے چھوٹے چھوٹے معرکے پیش آئے، سب میں حضرت عمر ؓ سرگرم پیکاررہے،یہاں تک کہ شوال ۳ھ میں احد کا معرکہ پیش آیا، اس میں ایک طرف تو قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں دوسو سوار اورسات سو زرہ پوش تھے،ادھر غازیان اسلام کی کل تعداد صرف سات سو تھی جس میں سوزرہ پوش اوردوسو سوارتھے،۷شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن جبیرؓ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب میں متعین کردیا تھا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ مسلمانوں نے غنیم کی صفیں تہ وبالاکردیں،کفار شکست کھاکر بھاگے اور غازیان دین مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے،تیراندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ختم ہوچکا ہے،اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہوگئے،تیراندازوں کا اپنی جگہ سے ہٹنا تھا کہ خالدبن ولید نے (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)دفعتہ عقب سے زوروشور کے ساتھ حملہ کردیا، مسلمان چونکہ غافل تھے اس لئے ناگہانی ریلے کو روک نہ سکے،یہاں تک کہ کفار نے خود ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر یورش کردی اوراس قدر تیروں اورپتھروں کی بارش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے، پیشانی پر زخم آیا اوررخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گرپڑے اورلوگوں کی نظروں سے چھپ گئے۔ جنگ کا زور وشورجب کسی قدر کم ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تیس فدائیوں کے ساتھ پہاڑ پر تشریف لائے، اسی اثنا میں خالد کو ایک دستہ فوج کے ساتھ اس طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ خدایا یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں ،حضرت عمر ؓ نے چند مہاجرین اورانصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹادیا۔ (طبری : ۱۴۱۱) ابو سفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے، ابو سفیان نے پھر حضرت عمر ؓ اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ کا نام لے کر کہا ،یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے جواب نہ دیا تو بولا کہ ضرور یہ لوگ مارے گئے،حضرت عمر ؓ سے نہ رہا گیا،پکار کر کہا:او دشمن خدا!ہم سب زندہ ہیں، ابوسفیان نے کہا"اعل ھبل" یعنی اے ہبل بلند ہو، (ہبل ایک بت کا نام تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سےفرمایا جواب دو،اللہ اعلی واجل یعنی خدا بلند وبرتر ہے۔ (بخاری کتاب المغازی،غزوہ احد) غزوہ احد کے بعد ۳ ھ میں حضرت عمر کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں، ۴ھ بنو نضیر کو ان کی بدعہدی کے باعث مدینہ سے جلاوطن کیا گیا،اس واقعہ میں بھی حضرت عمرؓ شریک رہے، ۵ھ میں غزوہ خندق پیش آیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر نکل کر خندق تیار کرائی،دس ہزار کفار نے خندق کا محاصرہ کیا،وہ لوگ کبھی کبھی خندق میں گھس کر حملہ کرتے تھے،اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے ادھر ادھر کچھ کچھ فاصلے پر اکابر صحابہ کو متعین فرمادیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں، ایک حصہ پر حضرت عمر متعین تھے؛چنانچہ یہاں پران کے نام کی ایک مسجد آج بھی موجود ہے،ایک دن کافروں کے مقابلہ میں ان کو اس قدر مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضاہوتے ہوتے رہ گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ آج کافروں نے نماز پڑھنے تک کا موقع نہ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی،(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب مواقیت الصلوٰۃ) کامل ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد مسلمانوں کے ثبات واستقلال کے آگے کافروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور یہ میدان بھی غازیوں کے ہاتھ رہا۔ ۶ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت کعبہ کا ارادہ فرمایا اور اس خیال سے کہ کسی کو لڑائی کا شبہ نہ ہو،حکم دیا کہ کوئی ہتھیار باندھ کر نہ چلے،ذوالحلیفہ پہنچ کر حضرت عمر ؓ کو خیال ہوا کہ دشمنوں میں غیر مسلح چلنا مصلحت نہیں ہے؛چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کے موافق مدینہ سے اسلحہ منگوالئے،مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ قریش نے عہد کرلیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنا مقصود نہیں تھا اس لئے مصالحت کے خیال سے حضرت عثمان ؓ کو سفیر بناکر بھیجا، قریش نے ان کو روک رکھا جب کئی دن گزرگئے تو یہ خبر مشہور ہوگئی کہ وہ شہید ہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر صحابہ ؓ جو تعداد میں چودہ سو تھے،ایک درخت کے نیچے جہاد پر بیعت لی؛چنانچہ قرآن مجید کی اس آیت میں "لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ"، اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ (سیرت ابن ہشام ج ۲ : ۱۶۶) حضرت عمر ؓ نے بیعت سے پہلے ہی لڑائی کی تیاری شروع کردی تھی،ہتھیارسج رہے تھے کہ خبر ملی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے رہے ہیں، اسی وقت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اورجہاد کے لئے دست اقدس پر بیعت کی۔ (بخاری کتاب المغازی غزوہ حدیبیہ) قریش مصر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے، آخر بڑے ردوقدح کے بعد ایک معاہدہ پر طرفین رضا مند ہوگئے، اس معاہدہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چلا جائے تو اس کو قریش کے پاس واپس کردیا جائے گا؛لیکن اگر مسلمانوں کا کوئی شخص قریش کے ہاتھ آجائے تو ان کو نہ واپس کرنے کا اخیتار ہوگا،حضرت عمر ؓ کی غیور طبیعت اس شرط سے نہایت مضطرب ہوئی اورخود سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ جب ہم حق پر ہیں تو باطل سے اس قدردب کرکیوں صلح کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں خدا کا پیغمبر ہوں اورخداکے حکم کے خلاف نہیں کرتا، اس کے بعد حضرت ابوبکر سے بھی یہی گفتگو کی، انہوں نےبھی یہی جواب دیا،بعد کو حضرت عمرؓ کو اپنی گفتگوپرندامت ہوئی اور اس کے کفارے میں کچھ خیرات کی۔ (بخاری کتاب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب) غرض معاہدہ صلح لکھا گیا،حضرت عمر ؓ نے بھی اسپر اپنے دستخط ثبت کئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کا قصد کیا،راہ میں سورہ "اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا"نازل ہوئی ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو بلاکر سنایا اور فرمایا کہ آج ایسی سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ (ایضاً کتاب التفسیر سورۂ فتح ) ۷ھ میں واقعہ خبیر پیش آیا،یہاں یہودیوں کے بڑے بڑے مضبوط قلعے تھے جن کا مفتوح ہونا آسان نہ تھا،پہلے حضرت ابوبکر سپہ سالار ہوئے،ان کے بعدحضرت عمرؓ اس خدمت پر مامور ہوئے؛لیکن یہ فخر حضرت علی ؓ کے لئے مقدر ہوچکا تھا چنانچہ آخر میں جب آپ کو علم مرحمت ہوا تو آپ کے ہاتھوں خیبر کا رئیس مرحب مارا گیا اور خبیر مفتوح ہوا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین مجاہدوں کو تقسیم کردی؛چنانچہ ایک ٹکڑا ثمغ نامی حضرت عمر ؓ کے حصہ میں آیا،انہوں نے اس کو راہ خدا میں وقف کردیا،(ایضا کتاب التفسیرسورۂ فتح)اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو عمل میں آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش کے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہواخیبر کے بعد قریش نے اس کو توڑدیا،ابوسفیان نے پیش بندی کےخیال سے مدینہ آکر عذرخواہی کی؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،اس لئے وہ اٹھ کر حضرت ابوبکر ؓ اورپھر حضرت عمر ؓ کے پاس گیا کہ وہ اس معاملہ کو طے کرادیں،حضرت عمر ؓ نے اس سختی سے جواب دیا کہ وہ بالکل ناامید ہوگیا،غرض نقض عہد کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رمضان ۸ ھ میں مکہ کا قصد فرمایا،قریش میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی ،اس لئے انہوں نے کوئی مزاحمت نہ کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت جاہ وجلال کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اورباب کعبہ پر کھڑے ہوکر نہایت فصیح وبلیغ تقریری کی جو تاریخوں میں بعینہ مذکور ہے، پھر حضرت عمر ؓ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لئے تشریف لائے لوگ جوق درجوق آتے تھے اوربیعت کرتے جاتے تھے،حضرت عمر ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ؛لیکن کسی قدر نیچے بیٹھے تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیگانہ عورتوں کے ہاتھ مس نہیں کرتے تھے،اس لئے جب عورتوں کی باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو اشارہ کیا کہ تم ان سے بیعت لو؛چنانچہ تمام عورتوں نے ان ہی کے ہاتھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ فتح مکہ کے بعد اسی سال ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو غزوہ حنین کے نام سے مشہورہے،حضرت عمر ؓ اس جنگ میں بھی نہایت ثابت قدمی اورپامردی کے ساتھ شریک کارزاررہے، پھر ۹ ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اورجنگی تیاریوں کے لئے زرومال سے اعانت کی ترغیب دلائی، اکثرصحابہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر اپنے تمام مال واملاک کا آدھا حصہ لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ ( ترمذی فضائل ابی بکر ؛لیکن ترمذی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر یہ رقم پیش کی تھی ،البتہ سیروتاریخ سے ثابت ہوتا ہے) اسلحہ اورسامان رسد مہیا ہوجانے کے بعد مجاہدین نے مقام تبوک کا رخ کیا،یہاں پہنچ کر معلوم ہواکہ خبر غلط تھی،اس لئے چند روز قیام کے بعد سب لوگ واپس آگئے۔ ۱۰ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لئے تشریف لے گئے،حضرت عمرؓ بھی ہمرکاب تھے، اس حج سے واپس آنے کے بعد ابتداماہ ربیع الاول دوشنبہ کے دن حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم بیمارہوگئےاور دس روز کی مختصر علالت کے بعد ۱۲ ربیع الاول دوشنبہ کے دن دوپہر کے وقت آپ کا وصال ہوگیا،عام روایت یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ازخود رفتہ ہوکر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلان کیا کہ جوشخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس کو قتل کرڈالوں گا۔ شاید اس میں یہ بھی مصلحت ہوکہ منافقین کو فتنہ پردازی کا موقع نہ ملے، پھر بھی فتنہ سقیفہ بنی ساعدہ کھڑاہی ہوگیا، اگرحضرت عمر ؓ اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ وقت پر پہنچ کر اپنے ناخن عقل سے اس گتھی کو نہ سلجھاتے تو کیاعجب تھا کہ یہی فتنہ شمع اسلام کو ہمیشہ کے لئے گل کردیتا؛لیکن انصار کے ساتھ بہت بحث ومباحثہ کے بعدحضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اوراس کے بعداورلوگوں نے بیعت کی۔ (بخاری کتاب المناقب فضائل ابی بکر ؓ ) حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت صرف سوادوبرس رہی ان کے عہد میں جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے سب میں حضرت عمر ؓ شریک رہے،قرآن شریف کی تدوین کا کام خاص ان کے مشورہ اوراصرار سے عمل میں آیا،غرض حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے عہد خلافت میں تجربہ ہوچکا تھا کہ منصب خلافت کے لئے عمر فاروق ؓ سے زیادہ کوئی شخص موزوں نہیں ہوسکتا؛چنانچہ انہوں نے وفات کے قریب اکابر صحابہ سے مشورہ کے بعد ان کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا اور آئندہ کے لئے مفید مؤثر نصیحتیں کیں جو حضرت عمر ؓ کے لئے نہایت عمدہ دستور العمل ثابت ہوئیں۔