انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۶)حضرت امام محمدؒ (۱۸۹ھ) آپؒ امام ابوحنیفہؒ کے نہایت قابلِ اعتماد شاگرد تھے؛ بلکہ یوں کہئے کہ حضرت امامؒ کے علوم زیادہ ترآپؒ ہی کے ذریعہ پھیلے، آپؒ نے حضرت امامؒ کی وفات کے بعد مزید تکمیل امام ابویوسفؒ سے کی اور اس کے بعد امام مالکؒ سے بھی مؤطا سنا؛ مگرجوعقیدت حضرت امامؒ سے ہوچکی تھی اس کے نقوش کسی دائرہ علم میں مٹ نہ سکے، ابوعبیدہؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمدؒ سے بڑھ کر قرآن کا عالم اور کوئی نہیں دیکھا، مشہور ہے کہ آپؒ نے علومِ دینیہ میں ۹۹۰/کتب تصنیف کیں (الفوائد البہیہ وترجمان السنہ:۱/۲۵۱) امام شافعی بھی آپؒ کے تلامذہ میں سے تھے، حدیث کی مشہور کتاب "مؤطا امام محمد" آپؒ ہی کے نام سے معنون ہے، اس کی محدثِ کبیر ملا علی قاریؒ نے مبسوط شرح لکھی ہے، حضرت مولانا عبدالحی لکھنویؒ نے التعلیق الممجد کے نام سے اس پر ایک مبسوط حاشیہ لکھا۔ (بستان المحدثین:۴۹) مؤطا امام مالکؒ اور مؤطا امام محمدؒ ہردوکتب آج بھی دینی مدارس میں دورۂ حدیث میں پڑھائی جاتی ہیں، امام شافعیؒ کا قول مشہور ہے کہ میں نے امام محمدؒ سے بقدر ایک اونٹ کتابوں کے علم حاصل کیا (تہذیب الاسماء:۱/۸۱) امام بخاریؒ کے استاذیحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں کہ میں نےجامع صغیر خود امام محمدؒ سے لے کر لکھی ہے، جو اُن کی مشہور تصنیف ہے، امام حربیؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا کہ آپؒ یہ مسائل دقیقہ کہاں سے بیان فرماتے ہیں تو کہا کہ امام محمدؒ کی کتب سے (تہذیب الاسماء:۱/۸۲،۸۱) امام محمدؒ نے مسعر بن کدامؒ، سفیان ثوریؒ، مالک بن دینارؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ حضرات سے بھی احادیث روایت کیں، امام محمدؒ کی شہرت زیادہ ترفقہ میں ہے؛ مگروہ تفسیر، حدیث اور ادب میں بھی اجتہاد کا درجہ رکھتے ہیں، امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے تیس ہزار درہم ترکہ میں چھوڑے تھے، پندرہ ہزار میں نے نحو، شعر اور ادب پر خرچ کیئے اور پندرہ ہزار فقہ وحدیث کی تعلیم پر صرف کیئے (بغدادی:۲/۱۷۳) امام دارِقطنیؒ (۳۸۵ھ) آپؒ کوثقات اور حفاظِ حدیث میں شمار کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث بیس عدد ثقات اور حفاظِ حدیث نے بیان کی ہے، جن میں امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ، یحییٰ بن سعید القطانؒ، عبداللہ بن المبارکؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ اور ابنِ وہبؒ وغیرہ شامل ہیں۔ (نصب الرایہ:۱/۴۰۹)