انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابو یوسف منصور ابو یعقوب کے بعد اُس کا بیٹا ابو یوسف منصور تخت نشین ہوا،تخت نشینی کے وقت منصور کی عمر۳۲ سال کی تھی، یہ ایک عیسائی عورت ساحرہ نامی کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا،منصور کےعہدِ حکومت میں اندلس کے اندر ہر طرفح مسلمانوں کو رفاہیت وغلبہ حاصل رہا، منصور ہر طرح اپنے باپ سے مشابہ تھا،علماء وفضلاء کا بے حد قدردان اور کتابوں کا شائق تھا،جس طرح ابو یعقوب کبھی اندلس اورکبھی مراقش میں رہا،اسی طرح منصور نے بھی اپنی حکومت کا اکثر زمانہ اندلس میں گذارا،۵۸۵ھ میں منصور نے اندلس کے مغربی حصے سے عیسائیوں کے اثر کو بالکل مٹادیا اورالفانسو ثانی بادشاہ طلیطلہ نے منصور کی خدمت میں پانچ سال کے لئے صلح کی درخواست پیش کی، منصور نے اس درخواست کو منظور کرلیا،یہ وہ زمانہ تھا کہ عیسائی یورپ کے ہر ایک ملک سے جمع ہو ہو کر شام و فلسطین پر حملہ آور ہو رہے تھے،الفا نسو دوم شاہ طلیطلہ کویہ خوف تھا کہ کہیں منصور میرا نام و نشان نہ مٹادے، اس لئے اس نے پنچ سالہ صلح کی درخواست منظور کرلیا۔یہ وہ زمانہ تھاکہ عیسائی یورپ کے ہر ایک ملک سے جمع ہو ہو کر شام وفلسطین پر حملہ آور ہو رہے تھے،الفانسو دوم شاہ طلیطلہ کو یہ خوف تھا کہ کہیں منصور میرا نام ونشان نہ مٹادے، اس لئے اس نے پہنچ سالہ صلح کی درخواست منظور کراکر اپنا اطمینان کیا کہ اس عرصہ میں صلیبی مجاہدین فارغ ہوکر میری مدد پرپہنچ سکیں گے،خود اندلس کے عیسائی شام وفلسطین کے صلیبی حملوں میں بکثرت شامل ہوتے تھے۔ منصور کی بحری طاقت بھی چونکہ بہت زبردست تھی اس لئے سلطان صلاح الدین ایوبی نے منصور کے پاس اپنا ایک سفیر عبدالرحمن بن منقد نامی جو اعلیٰ درجہ کا شاعر بھی تھا بھیجا اورایک خط منصور کے نام اس سفیر کے ہاتھ روانہ کیا جس میں لکھا تھا کہ عیسائی فوجیں فلسطین پر حملہ آور ہوئی ہیں اس وقت اگر اپنے جنگی جہازوں کو مسلمانوں کی امداد کے لئے بھیجو اورساحل فلسطین کی حفاظت کے کام میں اعانت کرو،تو بڑی آسانی سے عیسائیوں کو شکست دی جاسکتی ہے،اس خط میں سلطان صلاح الدین نے منصور کو امیر المومنین کے خطاب سے مخاطب نہیں کیا تھا، کیونکہ سلطان صلاح الدین صرف خلیفۂ بغداد ہی کو امیر المومنین خلیفۃ المسلمین سمجھتے تھے،اتنی سی بات پر منصور کبیدہ خاطر ہوا،ابن منقد کی بظاہر خوب خاطر مدارات کی اورایک قصید ے کے صلہ میں ابن منقد کو چالیس ہزار درہم انعام کے دئیے،مگر سلطان صلاح الدین نے جو امداد وطلب کی تھی،اس کے دینے میں لیت و لعل اورپس وپیش کیا۔ الفانسو ثانی بادشاہ طلیطلہ پنج سالہ صلح کے دوران میں مسلمانوں کی حملہ آوری سے تو بالکل مطمئن تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مسلمان وعدہ کے خلاف کبھی حملہ آور نہیں ہوسکتے، اس عرصہ میں اس نے خوب فوجی تیاریاں کیں،دوسرے عیسائی سلاطین کو اپنی مدد کے لئے آمادہ کیا اوراپنی اس تیاری کو بھی مثل صلیبی جنگوں کے مذہبی جہاد قرار دے کر بآسانی ہر قسم کی امداد واعانت عیسائیوں سے حاصل کی،مدتِ صلح کے گذرنے پر ماہِ رجب ۵۹۱ھ میں کئی عیسائی سلاطین اوران کی فوجوں کو ہمراہ لئے ہوئے مقام مالار کو علاقہ بطلیوس میں پہنچا تھا، کہ اُدھر سے منصور مقابلہ پر پہنچ گیا،بڑے زور شور سے لڑائی ہوئی،عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلامی فوج کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی،مگر عیسائی اپنی فوج کے ایک لاکھ ۴۶ ہزار آدمیوں کو قتل اور تیس ہزار گھوڑے،ایک لاکھ خچر اور چار لاکھ باربرداری کے گدھے اورساٹھ ہزار مختلف وضع کے زرہ بکتر مسلمانوں کے ہاتھ آئے جس نے،بآسانی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ عیسائیوں کی تیاریاں کیسی مکمل اورعظیم الشان تھیں اور منصور کے خلاف الفانسو دوم نے کیس زبردست طاقت فراہم کی تھی، منصور نے یہ تمام مالِ غنیمت جس میں بہت سازروجواہر بھی شامل تھا،سب اپنی فوج میں سپاہیوں کو تقسیم کردیا۔ الفانسو دوم اس میدان سے بھاگ کر اپنی بقیہ فوج کے ساتھ قلعہ رباح میں پناہ گزیں ہوا،منصور بھی پاشنہ کوب پہنچا اوراس قلعہ کا محاصرہ کیا، الفانسو یہاں سے بھاگ کر طلیطلہ آیا اور اس شرم انگیز شکست کے غم و غصہ میں سروریش کو منڈوا ڈالا اورصلیب کو اُٹھا کر قسم کھائی کہ جب تک ان لاکھوں عیسائی مقتولوں کا انتقام نہ لے لوں گا، اُس وقت تک عیش وآرام کو حرام شمجھو ں گا، منصور کو جب معلوم ہوا کہ الفانسو نے طلیطلہ میں جاکر اس طرح قسم کھائی ہے اوروہ دوبارہ جنگی تیاریوں میں مصروف ہے تو وہ بلا توقف طلیطلہ پر حملہ آور ہوا، اورشہر کا محاصرہ کرکے قلعہ شکن توپوں سے فصیل و قلعہ کی دیواروں کو چھلنی کردیا، قریب تھا کہ شہر اورالفانسو دونوں منصور کے قبضے میں آجائیں ،لیکن اس مقیم حالت میں الفانسو ثانی نے اپنی حمیت وغیرت کا یہ نمونہ دکھایا کہ اپنی ماں اوربیوی اور بیٹیوں کو منصور کے پاس بھیجا،یہ عورتیں سربرہنہ روتی ہوئی منصور کے سامنے آئیں اورالفانسو کی ماں نے اپنے بیٹے کے لئے عفو تقصیرات کی درخواست کرتے ہوئے اس قدر آہ وزاری کی کہ منصور اس نظارہ کی تاب نہ لاسکا،آنسوؤں کے دریانے خون کے آنسوؤں پر غلبہ ھاصل کیا اور قہر وغضب کو صفتِ رحم سے مغلوب ہونا پڑا منصور نے الفانسو کی ماں اور بیوی اور بیٹیوں کی بہت دل دہی اورتشفی کی،اُن کو گراں بہار زیوارت اورانعام واکرام سے مالا مال کرکے عزت وحرمت کے ساتھ شہر میں واپس بھیجا، اوراُس وقت طلیطلہ سے کوچ کرکے قرطبہ میں چلا آیا، الفانسو نے منصور کے روانہ ہونے کے بعد اپنے سفیروں کو اقرار اطاعت اور عہد نامہ کی تحریر وتکمیل کے لئے روانہ کیا جو قرطبہ میں حاضر دربار ہوئے ،منصور کے پاس جو تیس چالیس ہزار عیسائی قیدی تھے اُن کو منصور نے مراقش میں بھیج کر آباد کرادیا اوران کا ایک الگ قبیلہ قرار دیا گیا، منصور نہایت نیک طینت، عابد زاہد اورمتبع سنت فرماں روا تھا، اس کے حکم سے جہری نمازوں میں امام الحمد سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بالجہر پڑھتے تھے، ابو الولید ابن رشد نے ۵۹۴ھ کے آخری ایام میں منصور کے عہد حکومت میں مراقش کے اندر وفات پائی،ماہِ صفر ۵۹۵ھ میں منصور قریباً پندرہ سال کی فرماں روائی کے بعد فوت ہوا،اسی سال انگلستان کا بادشاہ رچرڈ فوت ہوا۔