انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافتِ بنواُمیہ پرایک نظر (۱)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے نصف آخر سے جواندرونی خرخشے اور خفیہ سازشیں شروع ہوئیں ان کا ایک ابتدائی حصہ اس نتیجہ پرختم ہوا کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ تسلیم کیے گئے اور خلافت بنواُمیہ کی بنیاد رکھی گئی، خلافتِ بنواُمیہ کی ابتدا ہی میں اس کی ہلاکت وبربادی عالم اسلام کی بدنصیبی کا سب سے بڑا سامان بانیٔ خلافتِ بنواُمیہ یعنی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں یہ پیدا ہوا کہ انھوں نے اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کوولی عہد بنایا، یہ ولی عہدی کی وباایسی شروع ہوئی کہ اس نے آج تک مسلمانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ وہ خوش گوار اور نافع نوع انسانی جمہوریت جواسلام نے قائم کی تھی ضائع ہوکر اس کی جگہ خاندانوں کی حکومتیں جونوعِ اسانی کے لیے ایک لعنت ہیں، برباد ہونے کے بعد دوبارہ قائم ہوگئیں، خاندان بنواُمیہ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ یہ عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک تین خلیفہ اپنی فتوحاتِ ملکی اور قابلیت ملک داری کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، ان کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ اس خاندان میں بالکل ایک نرالی قسم کے خلیفہ تھے، ان کی خلافت بالکل خلافتِ راشدہ کے اولین زمانے کا نمونہ تھا، عمربن عبدالعزیز چونکہ مذہبیت اور للّٰہیت غالب تھی لہٰذا وہ کسی پہلو میں بھی کسی اموی خلیفہ سے مشابہہ نہیں کہے جاسکتے، عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ اگرچہ بہت ہی تھوڑا زمانہ ہے؛ لکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی خلافت کے مرتبہ کوبلند کردیا ہے اور باوجود ہرقسم کی قابل اعتراض اور قابل ملامت حرکات کے خلافتِ بنواُمیہ کومحض عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی وجہ سے قابل فحر خلافت کہا جاسکتا ہے، ان کے بعد ہشام بن عبدالملک بھی ایک ایسا خلیفہ گزرا ہے جس کواوّل الذکر تین خلیفوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے، ہشام بن عبدالملک کے بعد پورے دس برس بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ خلافتِ بنواُمیہ کا عالی شان قصر منہدم ہوکر زمین کی برابر ہوچکا تھا اور اس کی بنیادیں بھی اکھیڑ کرپھینک دی گئیں تھیں، جن پانچ خلیفوں کے نام اوپر لیے گئے ہیں ان کے علاوہ سب کے سب عیش پرست، پست ہمت، تن آسان اور عقل وبصیرت سے ناآشانا تھے اور ہرگز اس قابل نہ تھے کہ کسی ایسی بڑی شہنشاہی کے فرماں روا ہوں، جیسی کہ خلافتِ بنواُمیہ تھی، اسلام نے آکر شراب نوشی اور موسیقی کومٹادا تھا؛ لیکن انھی خلفا بنواُمیہ نے ان دونوں پلید اور مضرچیزوں کوپھررواج دیا جن کا سلسلہ آج تک بھی مسلمانوں میں موجود پایا جاتا ہے۔ (۲)بنواُمیہ کے جرموں کی فہرست میں ایک یہ جرم بھی قابل تذکرہ ہے کہ اسلام نے خاندانوں اور قبیلوں کی تفریق وامتیٓز کومٹاکر سب کی ایک ہی برادری اور ایک ہی قبیلہ بنادیا تھا، بنواُمیہ نے قبیلوں کی عصبیت اور امتیاز کوازسرِنو پھرزندہ کردیا اور حمیت الجاہلیۃ کوپھرواپس بلانے کے سامان فراہم کردیے، انھوں نے عربوں کے فراموش شدہ سبق کوپھریاد دلادیا اور مسلمان قوم وقبیلے کواسلامی اخوت پرترجیح دینے لگے جس چیز کوبنواُمیہ دوبارہ پیدا کیا، بالآخر وہی چیز ان کی بربادی کا باعث ہوئی، یعنی علویوں اور عباسیوں نے اسی خاندانی امتیاز کوآلہ کار بناکر بنواُمیہ کی بربادی کے سامان فراہم کیے۔ (۳)بنواُمیہ نے اپنی حکومت وخلافت کے قیام واستحکام کے لیے ظلم وتشدد اور لوگوں کے قتل کرنے میں دریغ وتامل نہیں کیا خلفا بنواُمیہ کے سب سے زیادہ نامور اور کارگذار اہلِ کاروصوبہ دار وہی تھے جوسب سے زیادہ لوگوں کوبلادریغ قتل کرنے اور سختی سے کام لینے والے تھے، بنواُمیہ کوظلم وتشدد کا طرزِ عمل مجبوراً اپنی حکومت کوقائم رکھنے کے لیے اختیار کرنا پڑا تھا؛ لیکن آخر میں یہی طرزِ عمل ان کی بربادی کا باعث ہوا؛ کیونکہ رعایا کے دلوں سے ان کی حمایت وہمدردی مسلسل خوف ودہشت کے جاری رہنے سے جاتی رہی تھی۔ (۴)بنواُمیہ اس میں شک نہیں کہ قبائل قریش اور ملکِ عرب میں ایک نامور اور سردار قبیلہ تھا، اس قبیلہ میں اکثرایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جوتدبیر ورائے میں اپنے ہمعصروں پرفوقیت رکھتے تھے اور حکومت وملک داری کے اصولوں سے واقف تھے، یہ خصوصیتیں اس قبیلہ کوعہدِ جاہلیت میں بھی حاصل تھیں؛ مگراس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ بنواُمیہ کے گھروں میں کوئی نالائق پیدا ہی نہیں ہوسکتا تھا؛ اگربنواُمیہ میں ولی عہدی کی رسم جاری نہ ہوتی اور خلیفہ کا انتخاب صرف قبیلہ بنواُمیہ میں محدود کردیا جاتا، یعنی مسلمان اپنی مرضی اور اکثرتِ رائے سے قبیلہ بنواُمیہ کے کسی لائق ترین شخص کوخلافت کے لیے منتخب کرلیا کرتے، تب بھی اگرچہ بڑی بے انصافی اور غلطی ہوتی؛ تاہم خلافتِ بنواُمیہ کی یہ حالت نہ ہوگی اور عالمِ اسلام کواتنا بڑا نقصان نہ پہنچتا، جوپہنچا، اس طرح ممکن تھا کہ خلافتِ بنواُمیہ کی عمر بہت زیادہ طویل ہوتی اور وہ شکایتیں جوخلافتِ بنواُمیہ سے پیدا ہوئیں شاید پیدا نہ ہوتیں۔ (۵)خفیہ تدبیروں، سازشوں اور چالاکیوں میں بنواُمیہ کوعرب کے دوسرے قبائل پرفضیلت حاصل تھی اوور ان کی خلافت کا قیام انھیں چیزوں سے امداد حاصل کرنے کا نتیجہ تھا؛ لیکن تعجب ہے کہ انھیں چیزوں کے ذریعہ ہاشمیوں نے ان کومغلوب کیا؛ حالانکہ ہاشمی ان چیزوں میں ان کے شاگرد تھے، اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہ تھا کہ دولت وحکومت کے مردم افگن نشے نے ان کوجاہل وغافل بنادیا تھا اور ولی عہدی کی رسمِ بد نے اس جہالت وغفلت کواور بھی بڑھادیا تھا۔ (۶)مذکورہ بالاباتوں کے علاوہ بنواُمیہ کی خلافت میں بعض ایسی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں جوان کے بعد بہت ہی کم دیکھی گئیں اور اُن کے جانشینوں کونصیب نہ ہوئیں، مثلاً خلافتِ بنواُمیہ نے خلافتِ راشدہ کی فتوحات کووسعت دے کرمشرق ومغرب میں دُور دُور تک پھیلادیا، مشرق میں چین اور مغرب میں بحرِظلمات تک انھوں نے گویا انپے زمانے کی تمام متمدن دنیا کوفتح کرڈالا، انھیں کے زمانے میں سمندروں کے دور دراز جزیروں براعظم افریقہ کے ریگستانوں اور ہندوستان کے میدانوں تک اسلام پہنچا، خلافت بنواُمیہ کے زمانے میں اسلامی حکومت زیادہ سے زیادہ دُنیا میں پھیل چکی تھی اور حکومتِ اسلامیہ کا ایک مرکز تھا، بنواُمیہ کے بعد مسلمانوں کوجدید فتوحاتِ ملکی کا بہت ہی کم موقع ملا؛ گویا ملک گیری بنواُمیہ نے ختم کردی، اس کے بعد صرف ملک داری باقی رہی، بنواُمیہ کے بعد اسلامی حکومت کا مرکز بھی ایک نہ رہا؛ بلکہ ایک سے زیادہ الگ الگ حکومتیں قائم ہونے لگیں جن میں خلافتِ عباسیہ سب سے بڑی حکومت تھی۔ (۷)بنوامیہ کے عہدِ خلافت میں عربوں کی حیثیت ایک فاتح قوم کی رہی، عربی اخلاق، عربی زبان، عربی تمدن، عربی مراسم سب پرغالب وفائق تھے؛ لیکن بنواُمیہ کے بعد عجمیوں اور دوسری مفتوح قوموں کویہ مرتبہ حاصل ہونے لگا کہ وہ عربوں پرحکومت کریں اور عربوں کی کسی فضیلت وخصوصیت میں فاتحانہ عظمت کوتسلیم نہ کریں۔ (۸)عہد بنواُمیہ میں اگرچہ خارجی شیعہ اور بعض دوسرے گروہ پیدا ہوگئے تھے؛ لیکن سب کا عمودِ مذہب اور مدارِ استدلال قرآن وحدیث کے سوا اور کچھ نہ تھا، کتاب وسنت کے سوا کسی تیسری چیز کوقاضی نہ سمجھتے تھے؛ لیکن بعد میں ایسے بہت سے فرقے مسلمانوں میں پیدا ہونے لگے جنھوں نے کتاب وسنت کوپسِ پشت ڈال کراپنے پیروں، مرشدوں، اماموں اور صاحب گروہ علما کے اقوال واجتہاد کی پیروی کوکافی سمجھا؛ یہی وجہ تھی کہ خلافتِ بنواُمیہ کے زمانے میں مسلمانوں کی تمام ترتوجہ قرآن مجید اور سنتِ رسول اللہ کی طرف منعطف رہی، اس کے بعد قرآن مجید کی طرف سے مسلمانوں نے کم التفاتی وغفلت کا برتاؤ شروع کیا اور یہ نحوست یہاں تک ترقی پذیر ہوئی کہ آج ہمارے زمانے میں ایک واعظ اور ایک فارغ التحصیل مولوی کے لیے بھی یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ وہ قرآن مجید کوتدبر کے ساتھ پڑھ اور سمجھ چکا ہو۔ (۹)خلافتِ راشدہ میں اعلیٰ درجہ کی کامیابی اور فتح یہ سمجھی جاتی تھی کہ لوگ شرک وگمراہی سے نجات پاکر توحید اور عبادتِ الہٰی کی طرف متوجہ ہوجائیں اور مذہب اسلام لوگوں کا دستور العمل زندگی بن جائے، مال ودولت اور مادّی شان وشوکت کی کوئی قدروقیمت اور عزت ووقعت نہ تھی؛ لیکن خلافتِ بنواُمیہ میں مال ودولت اور شان وشوکت کوکامیابی سمجھا جانے لگا اور بیت المال کا روپیہ ان لوگوں کے لیے زیادہ صرف ہونے لگا، جوخلافت وسلطنت یعنی خاندان بنواُمیہ کے لیے موجب تقویت اور مفید ثابت ہوسکتے تھے، جن لوگوں سے بنواُمیہ کوکسی امداد واعانت کی توقع نہ ہوتی تھی یاجن کا خوش رکھنا وہ اپنے لیے ضروری نہ سمجھتے تھے ان کی طرف سے بے التفاتی برتی جاتی تھی اور اُن کے حقوق ان کونہ ملتے تھے، یہ رسمِ بد بعد کی خلافتوں میں اور بھی زیادہ ترقی کرگئی تھی؛ اسی نسبت سے عام طور پرمسلمانوں میں اغراض پرستی اور باہمی رقابت بڑھتی چلی گئی۔ (۱۰)ابتدائے اسلام اور خلافتِ راشدہ کے زمانے میں مسلمانوں کی زندگی نہایت سادہ اور ان کی ضروریاتِ زندگی بہت ہی محدود تھیں، عہد بنواُمیہ میں سامانِ عیش کا استعمال شروع ہوا اور وہ سپاہیانہ انداز جوپلے موجب فخرتھا، بتدریج مٹتے مٹتے بالکل دُور ہونے لگا، خوب صورت لباس پرتکلف مکانات اور زیب وزینت کے سامان ضروریاتِ زندگی میں داخل ہونے لگے اور اسینسبت سے مسلمانوں کے اندر صدیق، فاروق اور خالد وضرار رضی اللہ عنہم اجمعین کے نمونے کم نظر آنے لگے۔