انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یہ اصلاح کا گھر ہے اللہ تعالی اپنی رحمت وشفقت سے انسان کو پیدا کیا،پھر جنت جیسی عظیم ولازوال ابدی نعمت کی اطلاع دی اوراس کو حاصل کرنے کا ذریعہ اس مختصر زندگی میں اپنے ہی عمل کو بتایا،گویا اپنے اعمال سے اس کی قیمت متعین فرمائی،اب انسان کے اندر کی کمزوریوں یعنی خطاءونسیان کی وجہ سے ان کمزوریوں سے بچنے کے لیے اوراپنے آپ کو سنبھلنے اورکامیاب بنانے کے لیے کئی مواقع عطا کئے ،جیسے رسولوں کی بعثت، معلموں کی آمد، شریعت کی تعلیم،امربالمعروف اورنہی عن المنکر کا سلسلہ رکھا،نیز گناہوں پر جسمانی سزائیں،نیک عمل پر روحانی لذت، برے عمل پر روحانی کدورت وغیرہ اس لیے رکھا کہ اس کے ذریعہ انسان کو اپنے اعمال پر تنبیہ کرنا اوراس کی اصلاح کرنا مقصود ہے اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے انسانوں کی تنبیہ اوراصلاح کے لیے حسب ذیل مراتب مقرر کئےہیں۔ (۱)نیکی سے برائی کاکفارہ: چونکہ انسانی فطرت میں خطاونسیان ہے وہ کتناہی اپنے اعمال کو سدھار لے؛ لیکن وہ اس سے جڑے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے اللہ نے یہ اصول بتایا ہے کہ اگر انسان نیکیوں اور اچھے کاموں میں لگارہے گا تو ہم اس کی برکت سے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف کردیتے ہیں اسی طرح اگر کوئی گناہوں کے کرتے رہنے کے بعد کوئی نیک کام اچھا کردیتا ہے تو اس کی وجہ سے ان برائیوں کو ختم کردیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ " (الہود:۱۱۴) بیشک نیک کام مٹادیتے ہیں برے کاموں کو۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس آیت کا یہ بھی منشاء ہے کہ انسان نیکی کرتے کرتے برائیاں کم کردیتا ہے حتی کہ وہ مکمل نیکو کار انسان بن جاتا ہے اور یہ بھی خوشخبری اس میں ہے کہ یہ نیکیاں اس کی پہلی برائیوں کے انجام کو ختم کردیتی ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا: "اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَمَاتُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْعَنْکُمْ سَـیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًاکَرِیْمًا" (النساء:۳۱) جن کاموں سے تم کو منع کیا جاتا ہے ان میں جو بھاری بھاری کام ہیں اگر تم ان سے بچتے رہو تو ہم تمہاری خفیف برائیاں تم سے دور فرما دینگے اورہم تم کو ایک معزز جگہ میں داخل کردیں گے۔ (ترجمہ تھانویؒ) "لَئِنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَـیِّاٰتِکُمْ وَلَاُدْخِلَـنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ" (المائدۃ:۱۲) اگر تم نماز کی پابندی رکھو گے اورزکوۃ اداکرتے رہوگے اورمیرے سب رسولوں پرایمان لاتے رہو گے اوران کی مدد کرتے رہو گے اوراللہ تعالی کو اچھے طورپر قرض دیتے رہو گے،تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سے دور کردوں گا اورضرور تم کو ایسے باغوں میں داخل کردوں گا جن کے نیچے کو نہریں جاری ہونگی۔ (ترجمہ تھانویؒ) (۲)توبہ: کفارہ ہے، انسان کے تمام اعضاء میں اصل اس کا دل ہے، اس سے وہ پاک ہوتا ہے اور اسی سے ناپاک بنتا ہے، انسان اگر خلوص دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنی کوتاہیوں اورقصوروں پرشرمندہ ہوکر اپنی پچھلی زندگی سے بیزار گی ظاہر کرتے ہوئے آئندہ کے لیے نکوکاری کا خداسے مستحکم وعدہ کرلے تو اس کا نام "توبہ "ہے۔ یہ توبہ بڑے سے بڑے گناہ گار انسان کو بھی خدا کی آغوش محبت میں لاکر ڈالدیتی ہے،یہ گناہوں سے پاک ہونے اوراپنی اصلاح کا بہترین ذریعہ جو شریعت محمدیہ میں ہے،کسی اورمذہب میں موجود نہیں ہے نصوص شرعیہ میں اس توبہ کوبڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیاہے: "اِلَّامَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولِٕٓکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَــنَّۃَ وَلَایُظْلَمُوْنَ شَـیْــــًٔا"۔ (مریم:۶۰) ہاں مگر جس نے توبہ کرلی اورایمان لے آیا اور نیک کام کرنے لگا تویہ لوگ جنت میں جاویں گے اوران کا ذرا نقصان نہ کیا جاویگا۔ (ترجمہ تھانویؒ) "اِلَّامَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولِٕٓکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَـیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ، وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا" (الفرقان :۷۰) مگر جو توبہ کرلے اورایمان لے آوے اورنیک کام کرتا رہے تو اللہ تعالی ایسے لوگوں کے گناہوں کی جگہ نیکیاں عنایت فرماوے گا اور اللہ تعالی غفورہے رحیم ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اور یہی اس کی شان رحمت کا تقاضا ہے یہاں تک کہ چوراورڈاکو بھی اپنی گناہوں سے توبہ کریں تو ان کو بھی بشارت ہے: "فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْبُ عَلَیْہ، اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ" ۔ (المائدہ:۳۹) پھر جوشخص توبہ کرے اپنی اس زیادتی کرنے کے بعد اوراعمال کی درستی رکھے تو بیشک اللہ تعال اس پر توجہ فرمادیں گے۔ (ترجمہ تھانویؒ) "وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى"۔ (طٰہٰ:۸۲) اور میں ایسے لوگوں کے لیے بڑا بخشنے والا بھی ہوں جو توبہ کرلیں اورایمان لے کر آویں اورنیک عمل کریں پھر راہ پر قائم رہیں۔ (ترجمہ تھانویؒ) (۳)مصائب کے ذریعہ تنبیہ اورکفارہ: دنیا میں انسان کو مصیبتوں سے زیادہ بری اورتکلیف دہ چیز کچھ بھی نہیں معلوم ہوتی ہے،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرد ہی نہیں بلکہ جماعتیں اور قومیں بھی مصائب ہی کی تنبیہ اورسرزنش سے متنبہ اور ہوشیار ہو کر اصلاح کی طرف آمادہ ہوئے اور مغرور سے مغرور انسان کسی اتفاقی مصیبت کی ٹھوکر سے سنبھل جاتا ہے اس لیے غافل انسانوں اوراپنے آپ کو فراموش کرنے والوں کے لیے کبھی کبھی ان مصیبتوں سے بڑھ کر کوئی دوسری چیز نہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالی گناہ گاروں کو ہلاک کرنے سے پہلے مصائب کی آزمائشوں میں ڈالتا ہے کہ ہوسکتا ہے وہ اپنے بھولے ہوئے مالک کو یاد کرےاور اپنی غلط روی پر متنبہ ہوکر اپنی ہدایت واصلاح کی فکر کریں فرمایا: "وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّـنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّـرُوْنَ"۔ (الاعراف:۱۳۰) اور ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اورپھلوں کی کم پیداواری میں تاکہ وہ سمجھ جاویں۔ (ترجمہ تھانوی) "وَمَآاَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآاَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ"۔ (الاعراف:۹۴) اورہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے محتاجی اوربیماری میں نہ پکڑا ہوتا کہ وہ ڈھیلے پڑجاویں۔ (ترجمہ تھانوی ؒ) اورمسلمانوں سے فرمایا: "وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ، وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ، قَالُوْٓا اِنَّالِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ،وَاُولٰٓئکَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ "۔ (البقرۃ:۱۵۵،۱۵۷) اورہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اورفاقہ سے اورمال اورجان اورپھلوں کی کمی سے اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجئے کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کی ملک ہیں اورہم سب اللہ تعالی ہی کے پاس جانے والے ہیں، ان لوگوں پر خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کے طرف سے ہونگی اورعام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ ہیں جن کی رسائی ہوگئی۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس اصول کے تحت اللہ کے رسولﷺ بہت سی جزئیات بیان فرماتےہیں،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری "مَنْ یَّعْمَلْ سُوْءًا یُّجْزَ بِہٖ"(النساء:۱۲۳)جو کوئی برائی کرے گا اس کا بدلہ اس کو دیدیا جائے گاتو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا مطلب پوچھا:آپﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالی کا اپنے بندے پر عتاب ہے اس کا بدلہ دنیا میں بندہ کی ہر تکلیف سے پورا ہوجاتا ہے،جیسے اس کو بخار آجائے یا وہ کسی مصیبت سے دوچار ہوجائےیہاں تک کہ جیب میں کوئی چیز رکھ کر بھول جائے اوراس سے جو تکلیف اس کو پہنچے وہ تکلیف بھی کفارہ بن جاتی ہے ،یہاں تک کہ بندہ گناہوں سے اس طرح صاف ستھرا ہوکر نکلتا ہے جیسے بھٹی سے سونا۔ (ترمذی، باب ماجاء ومن سورۃ البقرۃ، حدیث نمبر:۲۹۱۷) دوسری احادیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کو کوئی مصیبت پیش نہیں آتی ہے؛لیکن یہ کہ اللہ تعالی اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے،یہاں تک کہ اگر اس کو کوئی کانٹا بھی جبھ جائے تو وہ بھی کفارہ بن جاتا ہے۔ (بخاری، باب ماجاء فی کفارۃ المرض، حدیث نمبر:۵۲۰۹) تیسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ"کسی مسلمان کو کوئی تکلیف،کانٹا چبھنے سے لیکر اوپر تک جتنی بھی پہنچے،اللہ تعالی اس سے اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑدیتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑجاتے ہیں"۔ (بخاری، باب ماجاء فی کفارۃ المرض، حدیث نمبر:۲۵۱۰) چوتھی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں جو مسلمان کسی جرم کا مرتکب ہوا اور اس کی سزااس کو یہیں مل گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ اوراس کو اس گناہ سے پاک وصاف بنانے والی ہے۔ (مسلم، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ من مرض اوحزن اونحوذلک، حدیث نمبر:۴۶۶۸) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جب کوئی انسان اللہ کو ایک ماننے کے بعد کسی گناہ میں ملوث ہوتا ہے تو دنیا میں توبہ، نیک اعمال اورمصائب پر صبر وشکر کے ذریعہ نجات پاسکتا ہے اوراس دنیا سے اسی طرح پاک اورصاف ہوکر نکل سکتا ہے کہ موت کے بعد اس کو کسی نئے کفارہ کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔