انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آخری غزوہ کعبؓ بن مالک سے مروی ہے کہ بنیﷺ تبوک کو پنچشنبہ کو روانہ ہوئے ، یہ آپﷺ کا آخری غزوہ تھا جسے آپﷺ نے پسند کیا، آپﷺ جمعرا ت کی روانگی پسند فرماتے تھے، یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے غزوۂ تبوک کا سفرکیا ، وہاں بیس رات مقیم رہے اور مسافر کی نماز پڑھتے رہے(ابن سعد) اس کے برخلاف ابن ہشام نے لکھا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے تبوک میں دس رات قیام فرمایا اس سے زیادہ نہیں (سیرت النبی- ابن ہشام) مدینہ کو واپسی: تبوک سے واپس ہوتے ہوئے راستے میں ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے حضور اکرم ﷺ کو قتل کرنے کی کوشش کی، اس وقت آپﷺ گھاٹی سے گذر رہے تھے اور آپﷺ کے ساتھ صرف حضرت عمارؓ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہؓ بن یمان اونٹنی ہانک رہے تھے ، باقی صحابہ کرامؓ دور وادی کے نشیب سے گذر رہے تھے اس لئے منافقین نے اس موقع کو غنیمت جان کر آپﷺ پر حملہ کی کوشش کی، اچانک ان منافقین کے قدموں کی چاپ سنائی دی جو سب اپنے چہروں پر ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور تقریباً قریب آگئے تھے کہ آپﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو ان کی طرف بھیجا، انہوں نے ان سواروں کے چہروں پر اپنے ایک ڈھال سے ضرب لگائی جس سے وہ مرعوب ہوگئے اور تیزی سے بھاگ کر اپنے ساتھیوں میں جا ملے، اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا، اسی لئے حضرت حذیفہؓ کو رسول اﷲ ﷺ کا " رازداں" کہا جاتاہے(الرحیق المختوم)مدینہ کو واپس ہوتے ہوئے راستہ میں ایک چشمہ پر پہنچے جس کا پانی پہاڑ سے تھوڑا تھوڑانکل رہاتھاصرف اتنا جو دو تین سواروں کو کافی ہو سکتا تھا، یہ چشمہ ایک وادی میں تھا جس کا نام مشقق تھا، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جو لوگ اس وادی میں ہم سے پہلے پہنچ جائیں وہ ہمارے آنے تک اس کا پانی بالکل نہ پئیں، روایت ہے کہ چند منافق حضورﷺ سے پہلے وادی میں پہنچے اور چشمہ کا جتنا پانی تھا پی گئے، پھر جب حضور ﷺ وہاں پہنچے تو پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پایا ، آپﷺ کے دریافت فرمانے پر انہوں نے کہا کہ فلاں فلاں لوگ آئے تھے، آپﷺ نے فرمایا! کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ہمارے آنے تک اس کا پانی بالکل نہ پئیں، آپﷺ نے ان پر لعنت بھیجی اور بد دعا کی، پھر آپﷺ اتر کر اس پتھر کے پاس آئے جس سے تھوڑا تھوڑا پانی نکل رہاتھا، خدا کی مشیت کے مطابق آپﷺ کے ہاتھ پر پانی بہنے لگا ، آپﷺ نے اسے چٹان پر چھڑک دیا اور جو دعا کرنی تھی کی، پھر چشمے سے پانی پھوٹ نکلا، ایک شخص کا بیان ہے کہ رعد جیسی آواز تھی، لوگوں نے خوب پانی پیا اور جتنا سیراب ہونا تھا ہوئے، اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا! اگر تم میں کچھ لوگ اور باقی رہ جاتے تو وہ بھی وادی سے یہی آواز سنتے(سیرت النبی- ابن ہشام)واپسی پر حضور ﷺ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا " یہ طابہ ہے اور یہ اُحد ہے، یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتاہے اور جس سے ہم محبت کرتے ہیں، مدینہ میں آپﷺ کے آنے کی اطلاع پہنچی تو عورتیں، بچے اور بچیوں نے باہر نکل کر یہ نغمہ گنگناتے ہوئے لشکر کا استقبال کیا … " طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وجب الشکر علینا مادعاﷲ داع " ہم پر ثنیات الوداع سے چودہویں کا چاند طلوع ہوا ، جب تک پکارنے والا اﷲ کو پکارے ہم پر شکر واجب ہے ۔