انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کمال خوش خُلق حضرت عبداللہ بن حارث کا قول ہے کہ میں نے کسی شخص کو جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوش خلق نہیں دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کا مالک ہو،حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشجع الناس تھے،ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اہل مدینہ یکا یک گھبرا اُٹھے ،جیسے کوئی دشمن چڑھ آئے اس قسم کا شور اُٹھا،لوگ اس آواز کی جانب چلے،مگر اُن کو آپ اس طرف سے واپس آتے ہوئے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار ہوکر ادھر تشریف لے گئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا گھبراؤ مت کوئی خوف واندیشہ کی بات نہیں، براء بن عازبؓ کا بیان ہے کہ جنگ حنین کے دن لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ رجز پڑھ رہے تھے: اَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ اَنَا اِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ اُس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر اور شجاع کوئی نہیں دیکھا گیا، جب لڑائی بہت تند اور تیز ہوتی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ ڈھونڈتے،ہم میں سب سے زیادہ بہادر اوردلیر وہ سمجھا جاتا جو میدانِ جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کھڑا رہ سکتا تھا،حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمر کاب تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت ایک موٹے کنارے کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، ایک بدوی نے چادر کا کنارہ پکڑ کر اس زور سے جھٹکادیا کہ چادر کے کنارے کی رگڑ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے اور گردن پر نشان پڑگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے،تو اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اس مال میں سے جو تیرے پاس ہے،میرے دونوں اونٹوں پر بھی کچھ لاددے ؛کیونکہ اس میں سے جو کچھ تو مجھے دے گا وہ کچھ تیرا یا تیرے باپ کا مال نہیں ہے، یہ تلخ اور سخت کلام سُن کر اول تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرطِ حلم وکرم سے خاموش رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک مال تو اللہ کا ہے اور میں اُس کا بندہ ہوں،مگر تو یہ تو بتا کہ تیرے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے جو تونے میرے ساتھ کیا ہے،اُس نے کہا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیوں نہیں؟ اُس نے کہا: کیونکہ تو بُرائی کے عوض بُرائی نہیں کرتا، یہ سُن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے ایک اونٹ پر جو اور ایک اونٹ پر کھجوریں لاد کر دے دو، ایک مرتبہ ایک یہودی زید بن سنعہ اسلام لانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے کچھ قرض کا تقاضا کرنے آیا اور بہت کچھ بک جھک کرنے لگا کہ تم اولادِ عبدالمطلب بڑے ہی نادہند اوروعدہ خلاف ہو، اس کی اس بدامنی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مسکراتے ہی رہے مگر حضرت عمرؓ نے اسے جھڑک کر ایسی بیہودہ گوئی سے روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروقؓ سے فرمایا : اے عمرؓ! تونے ہم دونوں سے وہ طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جو ہونا چاہئے تھا،مناسب یہ تھا کہ تم اسے نہ جھڑکتے ؛بلکہ حسن طلب اور نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی نصیحت کرتے اور مجھ سے ایفائے وعدہ اورادائے قرضہ کے لئے کہتے ،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا قرض ادا کردو اورجھڑکنے کے معاوضے میں بیس صاع یعنی ڈیڑھ من جَو اوردے دو؛حالانکہ میعاد قرض میں ابھی تین دن باقی تھے اوریہودی قبل ازانقضائے میعاد ہی تقاضا کرنے آگیا تھا، اس حلم نیک طینتی اورخوش خلقی کا یہ اثر ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ابو سیف لوہار کے یہاں گئے جس کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کو دودھ پلاتی تھیں،اُس وقت ابراہیم بالکل جاں بلب تھےاُن کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آب دیدہ دیکھ کر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی بے صبری کا اظہار فرماتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن عوف یہ آنسو رحم وشفقت کی وجہ سے ہیں بے صبری وناشکری کی وجہ سے نہیں ہیں اوربے شک دل رنج کرتا ہے اورآنکھوں سے آنسو بہتے ہیں،لیکن ہم کوئی بات ایسی نہیں کہتے جو رضائے الہی کے خلاف ہو،ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ انصار میں کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دے دیا، انہوں نے اور مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اور دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا سب دے ڈالا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ آتا ہے اُسے تم لوگوں سے بچا کر جمع نہیں رکھتا اور بلاشبہ جو شخص اللہ سے یہ مانگتا ہے کہ وہ اُسے سوال کی ذلت سے بچائے تو اللہ اسے اس ذلت سے بچالیتا ہے اور جو استغنا چاہتا ہے،اللہ اسے غنی کر دیتا ہے،جو شخص صبر اختیار کرتا ہے اللہ اسے صابر بنادیتا ہے اورکسی شخص کو عطایائے الہی میں سے کوئی عطیہ صبر سے زیادہ اچھا نہیں دیا گیا، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا فرمایا کہ اگر میرے پاس کوہِ اُحد کے برابر سونا ہو تب بھی مجھے خوشی اس وقت ہو کہ میں تین دن گزرنے سے پہلے ہی وہ سب تقسیم کردوں اورمیرے پاس سوائے اس کےجو میں ادائے قرض کے لئے اُٹھا رکھوں اورباقی نہ رہے،بعض اوقات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا اور کوئی حاجت مند آجاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرض تک لے کر اُس کی حاجت روائی میں تامل نہ ہوتا تھا، اور بالعموم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی قسم کے قرض تھے ورنہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو قرض لے کر پورا کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے نیاز تھے۔ جابرؓ بن عبداللہ کہتےہیں کہ میں ایک غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا،میرا اونٹ تھک کر پیچھے رہ گیا ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں جابرؓ کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا اونٹ تھک گیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اونٹ کے ایک تسمہ مارا تو وہ خوب تیز چلنے لگا، پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے چلے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تم یہ اونٹ فروخت کرتے ہو، میں نے کہا:ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھ سے خرید لیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے آئے اور میں ذرا دن چڑھے پہنچا، میں نے اونٹ مسجد پر دروازہ پر باندھ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اونٹ کو چھوڑدو اورمسجد میں آکر دورکعت نماز پڑھو،جب میں نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ اونٹ کی قیمت ادا کردو، میں قیمت لے کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پھر بلایا، میں ڈرا کہ میرا اونٹ واپس کردیا جائے گا،مگر میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ بھی لے جاؤ اوراس کی قیمت تمہاری ہوچکی،اسے بھی رہنے دو،ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگل میں تشریف لئے جاتے تھے،ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کھود کر دو مسواکیں نکالیں ،ایک سیدھی تھی ایک ٹیڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیڑھی خود لی اورسیدھی اپنے ہمراہی کو دی انہوں نے عرض کیا کہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہیں لی اورفرمایا کہ جو شخص کسی کی صحبت میں رہتا ہے خواہ گھڑی بھر ہی کیوں نہ ہو،قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ حقِ صحبت بجا لایا یا نہیں۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی اورایک منافق مسلمان بشر نامی کے درمیان کچھ جھگڑا تھا وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لئے آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے حالات تحقیق کرکے یہودی کو حق بجانب پایا اوریہودی کے حق میں فیصلہ صادر کیا،جب دونوں باہر نکلے تو بشر نے کہا یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا چلو حضرت عمرؓ کے پاس چلیں؛چنانچہ دونوں حضرت عمرؓ کے پاس آئے،یہودی نے آتے ہی بیان کردیا :ہم دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے انہوں نے میرے حق میں فیصلہ صادر کیا مگر اس نے نہیں مانا اورآپ کے پاس لایا ہے کہ آپ جو فیصلہ کریں گے وہ مانا جائے گا،حضرت عمرؓ نے بشر سے یہودی کے اس بیان کی تصدیق کی،اُس نے کہا:ہاں یہ سچ کہتا ہے ہم دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے مگر میں اُن کے فیصلے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو ترجیح دیتا ہوں،حضرت عمرؓ نے کہا:تم دونوں ذرا ٹھہرو میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں یہ کہہ کر وہ اندر گئے اور تلوار لاکر منافق بشر کی گردن اُڑادی اورکہا کہ جو شخص مسلمان ہوکر اللہ اوراُس کے رسول کے فیصلے کو نہ مانے میں اُس کا فیصلہ اس طرح کرتا ہوں،اس پر اس کے ہمراہی منافقوں نے بہت غل مچایا،مگر خدائے تعالی نے بذریعہ وحی حضرت عمرؓ کے اس فعل کی تائید فرمائی اوراُسی دن سے اُن کا لقب فاروق ؓ ہوگیا ۔ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے کہ بنی مخزوم میں سے ایک عورت فاطمہ بنت الاسود چوری کے جرم میں پکڑی گئی،ثبوتِ جرم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا،شرفائے قریش کو یہ عار ناگوار گزرا،انہوں نے چاہا کہ سفارش کرکے اس عورت کو سزا سے بچالیں مگر سفارش کرنے کی جرأت نہ ہوئی،آخر حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو کہہ سُن کر آمادہ کیا،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفارش کی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اُسامہؓ! تم اللہ کی مقرر کردہ سزا میں سفارش کو دخل دیتے ہو،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے مجمع میں تقریر فرمائی کہ اے لوگو! تم سے پہلے کی قومیں اسی لئے تباہ ہوگئیں کہ جب ان میں کوئی بڑا خاندانی شخص چوری کرتا تھا تو لوگ اُسے چھوڑدیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اُسے سزا دیتے تھے خدا گواہ ہے کہ اگر فاطمہؓ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کی ہوتی تو یقیناً میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا۔