انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زید بن سعنہ زید نام بنی اسرائیل سے تھے اور یہود میں بہت بڑے حبر(عالم) شمار ہوتے تھے آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو صورت دیکھتے ہی ان کو آپ کی نبوت کا یقین ہوگیا تو راۃ میں نبوت کی جو علامات مذکور ہیں ان سے تطبیق دی تو صرف دوباتوں کی کمی محسوس ہوئی جن کا تعلق اخلاق سے تھا اور انہی کی تحقیق پر ان کا ایمان لانا موقوف تھا۔ چنانچہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک روز دربار نبوی میں ایک سوار پہنچا کہ فلاں گاؤں کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں،لیکن قحط زدہ ہیں،آپ سے کچھ امداد ہوسکے تو دریغ نہ کیجئے، شہنشاہ مدینہ کے پاس نام خدا کے سوا اور کیا تھا، زیدؓ کو اب آزمائش کا موقع ملا تو راۃ میں پیغمبر کی دو علامتیں مذکور ہیں ایک یہ کہ اس کا علم اس کے غیظ و غضب پر سبقت کرتا ہے اور دوسری یہ کہ جاہلانہ حرکتوں کا جواب تحمل سے دیتا ہے زیدؓ علم کے ساتھ مال و دولت سے بھی بہرہ مند تھے،حضور کی خدمت میں آئے اور کہا محمد! اگرچاہو تو فلاں باغ کے چھوہارے اتنی مدت کے لئے میرے ہاتھ رہن کردو، آپ نے ۸۰ دینار( ۴۰۰ روپے) پر چھوہاروں کی ایک معین مقدار رہن کردی اورروپیہ سوار کے حوالہ کیا، ایک روز آنحضرتﷺ ایک انصاری کے جنازہ پر تشریف لائے،حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ بھی ساتھ تھے، نماز سے فارغ ہوئے تو زیدؓ نے میعاد ختم ہونے سے قبل ہی تقاضا شروع کیا اورنہایت سختی کی چادر اور قمیض کا دامن پکڑا پھر آپ کی طرف گھور کر دیکھا اور کہا محمد میرا حق نہ دوگے ؟ خدا کی قسم عبدالمطلب کی اولاد ہمیشہ کی نادہند ہے یہ جملہ سن کر حضرت عمرؓ کو طیش آگیا بولے خدا کے دشمن !میرے سامنے رسول اللہ ﷺ کو یہ باتیں کہتا ہے خدا کی قسم اورخالی جانے کا احتمال نہ ہوتا تو ابھی تیر اسراڑادیتا، آنحضرتﷺ حضرت عمرؓ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اورفرمایا :"یہ بات زیبا نہیں تم ان کا قرض ادا کرنے کی فکر کرو، ان کو لیجا کر روپے دو ،۲۰ صاع اور زیادہ دینا جو اس خفگی کا جرمانہ ہے"زیدؓ نے حضرت عمرؓ سے روپیہ لیا اورچونکہ ان دونوں وصفوں کی اب تصدیق ہوگئی تھی اس لئے کلمہ توحید پڑھ کر فوراً مسلمان ہوگئے۔ غزوات اکثر غزوات میں شامل ہوئے۔ وفات غزوہ تبوک میں مدینہ واپس ہوتے وقت شہادت نصیب ہوئی، اس غزوہ میں نہایت شجاعت سے لڑے تھے،صاحب اصابہ لکھتے ہیں۔ استشھد فی غزوۃ تبوک مقبلا غیر مدبر (اصابہ:۳/۲۸)