انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اہلِ حبشہ اور عرب سرحدی مقامات اور شمالی حجاز میں عیسائی اثرات رومی حکومت یااس کے زیراثر سرحدی ریاستوں کے ذریعے پھیلے؛ مگرجزیرہ کے جنوبی حصہ یعنی یمن اور اس سے ملحقہ علاقوں میں عیسائیت کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ حبشہ کی عیسائی حکومت تھی، اس لیے اس کے اور عربوں کے قدیم تعلقات پربھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے؛ بعض مستشرقین حبشہ (ابی سیینا) کے صوبہ امہرہ کا تعلق یمن کے قدیم قبیلہ مہرہ سے ثابت کیا ہے (سیاسی زندگی:۱۳۹) ابن خلدون نے مہرہ کے متعلق تونہیں مگراس سلسلہ کی دوسری شاخوں کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مصر وحبشہ تک پھیل گئے تھے (ابنِ خلدون:۲/۲۴۷) ممکن ہے اسی تعلق کی بناپر مستشرقین نے یہ رائے قائم کرلی ہو؛اگرابنِ خلدون اور مستشرقین کے بیان کوتسلیم کرلیا جائے توتیسری صدی عیسوی سے پہلے عربوں اور اہلِ حبشہ میں تعلقات قائم ہوچکے تھے (اس لیے کہ جن قبائل کا ذکر ابن خلدون نے کیا ہے وہ مارب ٹوٹنے سے پہلے یمن سے باہر جاچکے تھے اور سدمارب کے متعلق اوپر ثابت ہوچکا ہے، یہ واقعہ تیسری صدی کی ابتدا میں پیش آیا)۔ یمن میں عیسائیت کا سب سے بڑا مرکز نجران تھا، پانچویں صدی عیسوی سے پہلے یہاں عیسائیت آچکی تھی، اس وقت یہاں حمیری حکومت تھی، جس کے فرمانروا عموماً یہودی تھے، آخری فرمانروا ذونواس توغالی یہودی تھا، یمن کی اس حمیری حکومت اور حبشہ کی عیسائی حکومت میں برسوں سے کشمکش تھی، یمن میں عیسائیت کے فروغ سے میری حکومت اپنے لیے خطرہ محسوس کررہی تھی، اس لیے وہ اس ملک میں اسی کے خاتمہ کی فکر میں تھی؛ اسی اثنا میں ایک اتفاقی واقعہ یہ پیش آگیا کہ دویہودی نجران میں قتل کردیے گئے، ذونواس کواس کی اطلاع ہوئی تواس کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا، پوری ایک فوج کے ساتھ نجران گیا اور عیسائیوں کا قتل عام شروع کردیا، مفسرین لکھتے ہیں کہ قرآن کی اس آیت: قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ (البروج:۴) میں ذونواس کے اسی حملہ اور قتلِ عام کی طرف اشارہ ہے۔ جونجرانی عیسائی قتل ہونے سے بچ گئے وہ حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے دربار میں فریاد لے کرپہنچے اور اس کے سامنے انجیل مقدس کی جلی ہوئی جلدیں پیش کیں، غالباً وہ تنہا یمنی حکومت سے ان مظالم کا انتقام نہیں لے سکتا تھا، اس لیے اس نے قیصر روم سے مدد چاہی بعض مورخین کا بیان ہے کہ خود نجران کے فریادی ہی قیصرِ روم کے پاس گئے تھے، بہت ممکن ہے کہ اس میں سے کچھ حبشہ گئے ہوں اور کچھ روم اور مدد کے خواستگار ہوئے ہوں؛ بہرحال قیصر متاثر ہوا اور کئی سوکشتیاں تیا رکراکے حبشہ روانہ کیں، خودنجاشی شاہ حبشہ نے بھی سات سوکشتیاں تیار کرائیں اور ان پرایک لاکھ یااس سے زیادہ فوج سوار ہوئی اور یہ فوج ان ہی کشتیوں کے ذریعہ آبنائے باب المندب کوعبور کرکے یمن کے ساحل پراُترگئی اور یمن پرحملہ کردیا جس میں ابتداً ان کوشکست اُٹھانی پڑی؛ مگرفوراً ہی حبشہ سے مزید کمک آگئی اور اس نے حمیری حکومت کوشکست دے دی، ان کے فرمانروا ذونواس نے خودکشی کرلی، یہ واقعہ سنہ۴۹۶ء کا ہے، ذونواس کی شکست وخودکشی کے بعد پورا یمن حبشہ کی عیسائی حکومت کے تحت آگیا اور اس کے زیرسایہ عیسائیت کویہاں بڑا فروغ ہوا اور تقریباً سوبرس تک اس کا زور باقی رہا، اس کے بعد یمن پرایرانیوں کا قبضہ ہوا جس سے عیسائیت کا زور توگھٹ ضرور گیا، مگر ختم نہیں ہوا۔ ہم نے اُوپریہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جزیرۂ عرب میں عیسائیت کوفروغ ہمیشہ حکومت کے زیرسایہ، یاعیسائیوں کے سیاسی تغلب کے تحت ہوا ہے، ان واقعات سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے، یمن پرحبشہ کے تسلط کے بعد اس کی طرف سے برابر گورنرمقرر ہوکر وہاں جاتے تھے، یمن میں حبشہ کی حکومت کا ایک عیسائی گورنر ابرہہ گذرا ہے، جوبڑا مذہبی تھا اور جس نے وہاں بہت سے تاریخی وتمدنی کارنامے انجام دیے ہیں جن کی وجہ سے اس کا نام اب تک زندہ ہے، مثلاً سدمارب کی مرمت اور متعدد گرجوں کی تعمیر وغیرہ۔