انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت اُمِ عطیہ رضی اللہ عنہا نام ونسب نسیبہ بنت حارث نام، انصار کے قبیلہ ابی مالک بن النجار سے تھیں۔ (طبقات ابن سعد:۸/۳۲۱،۳۲۲) اسلام ہجرت سے قبل مسلمان ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے توانصار کی عورتوں کوایک مکان میں بیعت کے لیے جمع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کودروازہ پربھیجا کہ ان شرائط پربیعت لیں کہ شرک نہ کریں گی، چوری اور زنا سے بچیں گی، اولاد کوقتل نہ کریں گی، کسی پربہتان نہ باندھیں گی، اچھی باتوں سے انکار نہ کریں گی، عورتوں نے یہ سب تسلیم کیا، توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر کی طرف ہاتھ بڑھایا اور عورتوں نے اپنے ہاتھ باہر نکالے جوبیعت کی علامت تھی، اس کے بعد حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اچھی باتوں سے انکار کرنے کے کیا معنی ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نوحہ اور بین نہ کرنا۔ (مسند:۶/۴۰۹) غزوات اور عام حالات حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا عہد رسالت کے سات معرکوں میں شریک ہوئیں جن میں وہ مردوں کے لیے کھانا پکاتی ان کے سامان کی حفاظت کرتی، مریضوں کی تیمارداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم:۲/۱۰۵) سنہ۸ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا اور چند عورتوں نے ان کوغسل دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونہلانے کی ترکیب بتلائی۔ (بخاری:۱/۱۶۸) خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں ان کا ایک لڑکا کسی غزوہ میں شریک تھا بیمار ہوکر بصرہ آیا، حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا مدینہ میں تھیں، خبر ملی تونہایت عجلت سے بصرہ روانہ ہوئیں؛ لیکن پہنچنے کے ایک دودن قبل وہ وفات پاچکا تھا؛ یہاں آکر انہوں نے بنوخلف کے قصر میں قیام کیا، تیسرے روز انہوں نے خوشبو منگاکرملی اور کہا کہ شوہر کے علاوہ اور کسی کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ نہیں کرنا چاہئے۔ (صحیح بخاری،كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا:۱/۱۷۰) اس کے بعد بصرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ (اسدالغابہ:۵/۶۰۳) وفات وفات کی تاریخ اور سنہ معلوم نہیں اور نہ اولاد کی تفصیل کا علم ہے۔ فضل وکمال چند حدیثیں روایت کی ہیں راویوں میں حسبِ ذیل : حضرت انس رضی اللہ عنہ، ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ، حفصہ بنت سیرین، اسماعیل بن عبدالرحمن بن عطیبہ، عبدالملک، ابن عمیر، علی بن الاقمر، ام شراحیل۔ صحابہ اور تابعین ان سے میت کے نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے۔ (تہذیب:۱۲/۴۵۵۔ اصابہ:۸/۲۵۹) اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس صدقہ کی ایک بکری بھیجی توانہوں نے اس کاگوشت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس روانہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے توکھانے کے لیے مانگا، بولیں اورتوکچھ نہیں ہے؛ البتہ جوبکری آپ نے نسیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجی تھی اس کا گوشت رکھا ہے، آپ نے فرمایا لاؤ؛ کیونکہ وہ مستحق کے پاس پہنچ چکی۔ (مسلم:۱/۴۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے اعزہ واقارب سے بھی خاص تعلقات تھے؛ چنانچہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عطیہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں قیلولہ فرماتے تھے۔ (اصابہ:۸/۲۵۹) احکام نبوی کی پوری پابندی کرتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت میں نوحہ کی ممانعت کی تھی، اس پرانہو ں نے ہمیشہ عمل کیا؛ چنانچہ بیعت ہی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ فلاں خاندان کے لوگ میرے ہاں رہ چکے ہیں، اس لیے مجھ کوبھی ان کے ہاں جاکررہنا ضروری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خاندان کومستثنیٰ کردیجئے؛ چنانچہ آپ نے مستثنیٰ کردیا۔ (مسند:۶/۴۰۷) بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کوکوئی جواب نہیں دیا اور جن روایات سے ثابت ہے کہ حضور نے ان کومستثنیٰ کردیا، ان کا مطلب یہ ہے کہ یہ استثناء حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا کے لیے خاص تھا؛ ورنہ اصلی مسئلہ کونوحہ جائز نہیں ہے اپنی جگہ پرثابت ہے لڑکے کی وفات اور اس پرسوگ کرنے کا حال ابھی گذرچکا ہے۔