انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تاتاریوں کا حملہ ابوداؤد میں حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:دریائے دجلہ کے قریب مسلمانو ں کا ایک بڑا شہر ہوگا،دجلہ پر ایک بڑا پل ہوگا آخری زمانے میں چوڑے چوڑے چہرے اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے ترک حکملہ کریں گے اور نہر کے کنارے پڑاؤ ڈالیں گے،مسلمانوں کی آبادی تین حصوں میں بٹ جائے گی ایک گروہ اپنا سامان بیلوں پر لاد کر شہر سے بھاگ جائے گا دوسرا گروہ ترکوں کی پناہ میں آکر خود کو ان کے حوالے کردےگا یہ دونوں گروہ ہلاک ہوجائیں گے تیسرا گروہ اپنے آل وااولاد کو شہر میں رکھ کر خود آگے بڑے گا اور ان ترک کافروں سے لڑائی لڑےگا یہ گروہ شہادت کا درجہ پائے گا۔ آنحضرتﷺ کی یہ پیشن گوئی بھی حرف بحرف پوری ہوئی ؛چنانچہ خلیفہ مستعصم باللہ عباسی کے زمانے خلافت میں تاتاری ترکوں نے مسلمانو ں کے آباد شہر بغداد پر چڑھائی کی،بغداد میں دریائے دجلہ ہےاور اس پر ایک پل بھی اس زمانے میں تھا،ترکوں نے شہر کو گھیر لیا،مسلمانوں میں سے لوگ اپنے بال بچوں کو لے کر بھاگ نکلے؛ مگر وہ بچ نہ سکے اور ترکو ں نے ان کو قتل کردیا اور کچھ لوگوں نے ترک بادشاہ سے امان چاہی ان ہی میں مستعصم باللہ اور اکثر شہر کے بڑے لوگ تھے ،انہوں نے ترکوں کی فرمانبرداری کا وعدہ کیا ؛مگر ان کو بھی ترکوں نے ہلاک کردیا ،تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نہ بہادری کے ساتھ کافروں سے جہاد کیا، اللہ نے اس گروہ کو شہادت عطا فرمائی، پہلے دو گروہ دنیا اور آخرت میں ناکام ہوئے ؛کیونکہ جان بھی گئی اور آخرت میں شہادت کا درجہ بھی نہیں ملا،تیسرے گروہ نے دنیا میں بھی بہادری کی نیک نامی پائی اور آخرت بھی شہادت سے سنور گئی ،یہ پیشن گوئی جس کتاب میں ہے یعنی ابوداؤد میں وہ اس واقعہ سے چار سو سال پہلے لکھی ہوئی ہے، اس سے نبی کریمﷺ کی صداقت ظاہر ہوتی ہے۔