انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نام ونسب فطامہ رضی اللہ عنہا نام، زہرالقب تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے کم سن تھیں، سنہ ولادت میں اختلاف ہے، ایک روایت ہے کہ سنہ۱/ بعثت میں پیدا ہوئیں، ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ابراہیم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد قبل نبوت پیدا ہوئی، آپ کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی، اس بناپربعضوں نے دونوں روایتوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ سنہ۱/ بعثت کے آغاز میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئی ہونگی اور چونکہ دونوں کی مدت میں بہت کم فاصلہ ہے، اس لیے یہ اختلاف روایت ہوگیا ہوگا، ابن جوزی نے لکھا ہے کہ بعثت سے پانچ برس پہلے خانہ کعبہ کی تعمیر جب ہورہی تھی، پیدا ہوئیں، بعض روایتوں میں ہے کہ نبوت سے تقریباً ایک سال پیشتر پیدا ہوئیں۔ نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب مشہور روایت کے مطابق ۱۸/سال اور اگر سنہ۱/بعثت کوان کاسالِ ولادت تسلیم کیا جائے تو پندرہ سال ساڑھے پانچ مہینہ کی ہوئیں توذی الحجہ سنہ۳ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ کے ساتھ ان کا نکاح کردیا، ابن سعد نے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوخدا کا حکم ہوگا؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جرأت کی ان کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہیں دیا؛ بلکہ وہی الفاظ فرمائے؛ لیکن بظاہر یہ روایت صحیح نہیں معلوم ہوتی، حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں ابن سعد کی اکثر روایتیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حال میں روایت کی ہیں؛ لیکن اس کونظر انداز کردیا ہے۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب درخواست کی توآپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مرضی دریافت کی، وہ چپ رہیں، یہ ایک طرح کا اظہار رضا تھا، آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟ بولے کچھ نہیں، آپ نے فرمایا اور وہ حطمیہ زرہ کیا ہوئی؟ (جنگ بدر میں ہاتھ آئی تھی) عرض کی وہ توموجود ہے، آپ نے فرمایا: بس وہ کافی ہے، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اس کو۴۸۰/درہم پرفروخت کیا اور قیمت لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ بازار سے خوشبو لائیں۔ زرہ کے سوا اور جوکچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کا سرمایہ تھا وہ ایک بھیڑ کی کھال اور ایک بوسیدہ یمنی چادر تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سب سرمایہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے نذر کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس رہتے تھے، شادی کے بعد ضرورت ہوئی کہ الگ گھرلیں، حارثہ بن نعمان انصاری کے متعدد مکانات تھے، جن میں سے وہ کئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونذرکرچکے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ان ہی سے کوئی مکان دلوادیجئے، آپ نے فرمایا کہ کہاں تک، اب ان سے کہتے شرم آتی ہے، حارثہ رضی اللہ عنہ نے سناتودوڑے آئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اور میرے پاس جوکچھ ہے سب آپ کا ہے، خدا کی قسم میرا جومکان آپ لے لیتے ہیں مجھ کواس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ وہ میرے پاس رہ جائے؛ غرض انہوں نے اپنا ایک مکان خالی کردیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس میں چلی گئیں، شہنشاہِ مدینہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سیدۂ عالم رضی اللہ عنہا کوجوجہیز دیا وہ بان کی چار پائی، چمڑے کا گدا جس کے اندر روئی کے بجائے کھجور کے پتے تھے، ایک چھاگل، دومٹی کے گھڑے، ایک مشک اور دوچکیاں اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہی دوچیزیں عمربھران کی رفیق رہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب نئے گھر میں گئیں توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، دروازے پرکھڑے ہوکر اذن مانگا؛ پھراندر آئے، ایک برتن میں پانی منگوایا، دونوں ہاتھ اس میں ڈالے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سینہ اور بازؤں پرپانی چھڑکا؛ پھرحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کوبلایا، وہ شرم سے لڑکھڑاتی آئیں، ان پربھی پانی چھڑکا اور فرمایا کہ میں نے اپنے خاندان میں بہترشخص سے تمہارا نکاح کیا ہے۔ (یہ تمام تفصیل صحیح بخاری:۲/۵۷۱۔ طبقات ابن سعد) داغ بے پدری حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر مشہور روایت کے مطابق ۲۹/سال کی تھی کہ جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں اور اب صرف وہی باقی رہ گئی تھیں، اس لیے ان کوصدمہ بھی اوروں سے زیادہ ہوا، وفات سے پہلے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوبلابھیجا، تشریف لائیں توان سے کچھ کان میں باتیں کیں، وہ رونے لگیں؛ پھربلاکر کچھ کان میں کہا توہنس پڑیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا توکہا، پہلی دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں انتقال کرونگا، جب میں رونے لگی توفرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تمہیں مجھ سے آکرملوگی توہنسنے لگی۔ (صحیح بخاری:۲/۶۳۸) وفات سے پہلے جب بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرغشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ دیکھ کربولیں: وَاكَرْبَ أَبَاهُ ہائےمیرے باپ کی بے چینی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہوگا۔ (بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ،حدیث نمبر:۴۱۰۳، شاملہ، موقع الإسلام) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پرایک مصیب ٹوٹ پڑی، اسدالغابہ میں لکھا ہے کہ جب تک زندہ رہیں کبھی تبسم نہیں فرمایا (اسدالغابہ:۵/۵۲۴) بخاری میں لکھا ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نعش مبارک کودفن کرکے واپس آئے توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تم کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرخاک ڈالتے اچھا معلوم ہوا؟۔ (بخاری:۲/۶۴۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد میراث کا مسئلہ پیش ہوا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن، یہ تمام بزرگ میراث کے مدعی تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی ایک قائم مقام موجود تھا، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائداد خالصہ جائداد تھی اور اس میں قانونِ وراثت جاری نہیں ہوسکتا تھا، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزہ کواپنے اعزہ سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں؛ لیکن دقت یہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ انبیاء جومتروکہ چھوڑتے ہیں وہ کل کا کل صدقہ ہوتا ہے اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی اس بناپر میں اس جائداد کوکیونکر تقسیم کرسکتا ہوں؛ البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اہلِ بیت جس حد تک اس سے فائدہ اُٹھاتے تھے اب بھی اٹھاسکتے ہیں، صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ اس گفتگو سے کوحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کوسخت قلق ہوا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ آخر وقت تک ان سے گفتگو نہیں کی (بخاری شریف:۱/۲۶) طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بعد کوحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہوگئی تھیں۔ (طبقات ابن سعد:۸/۱۷) وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کو۶/ماہ گذرے تھے کہ رمضان سنہ۱۱ھ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے آکرملوگی، پوری ہوئی، یہ منگل کا دن اور رمضان کی تیسری تاریخ تھی، اس وقت ان کا سن ۲۹/سال کا تھا؛ لیکن اگردوسری روایتوں کالحاظ کیا جائے تواس سے مختلف ثابت ہوگا؛ چنانچہ ایک روایت میں ۲۴/سال، ایک میں ۲۵/سال اور ایک میں ۳۰/سال مذکور ہے، زرقانی نے لکھا ہے کہ پہلی روایت ۲۹/سال زیادہ صحیح ہے؛ اگرسنہ۴۱ھ (محمدی) کوسال ولادت قرار دیا جائے تواس وقت ان کا یہ سن نہیں ہوسکتا تھا؛ البتہ اگر۲۴/سال کی عمر تسلیم کی جائے تواس سنہ کوسالِ ولادت قرار دیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگریہ روایت صحیح مان لی جائے کہ پانچ برس قبل نبوت میں پیدا ہوئیں تواس وقت ان کا سن ۲۹/سال کا ہوسکتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تجہیزوتکفین میں خاص جدت کی گئی، عورتوں کے جنازہ پرجوآجکل پردہ لگانے کا دستور ہے اس کی ابتدا ان ہی سے ہوئی، اس سے پیشتر عورت اور مرد سب کا جنازہ کھلا ہوا جاتا تھا؛ چونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں انتہا کی حیاوشرم تھی، اس لیے انہوں نے حضرت اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا سے کہا کہ کھلے جنازہ میں عورتوں کی بے پردگی ہوتی ہے جس کومیں ناپسند کرتی ہوں، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا جگرگوشۂ رسول! میں نے حبش میں ایک طریقہ دیکھا ہے، آپ کہیں تواس کوپیش کروں، یہ کہہ کر خرمے کی چند شاخیں منگوائیں اور ان پرکپڑا تانا جس سے پردہ کی صورت پیدا ہوگئی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بے حد مسرور ہوئیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا جنازہ بھی اسی طریقہ سے اُٹھایا گیا۔ (اسدالغابہ:۵/۵۲۴) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر کے متعلق بھی سخت اختلاف ہے، بعضوں کا خیال ہے کہ وہ بقیع میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس مدفون ہوئیں، ابن زبالہ نے یہی لکھا ہے اور مورخ مسعودی نے بھی اسی قسم کی تصریح کی ہے، مورخ موصوف نے سنہ۳۳۲ھ میں بقیع کی ایک قبرپرایک کتبہ دیکھا تھا، جس میں لکھا تھا کہ یہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی قبر ہے (خلاصۃ الوفا:۲۱۷) لیکن طبقات کی متعدد روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دارعقیل کے ایک گوشہ میں مدفون ہوئیں۔ (طبقات:۸/۲۰) ایک روایت یہ ہے کہ وہ خاص اپنے مکان میں دفن کی گئیں، اس پرابن شیبہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ پھرپردہ دارجنازہ کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن طبقات کی ایک روایت سے اس کا یہ جواب دیا جاسکتا ہےکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سلمی کے گھر میں بیمار ہوئی تھیں وہیں انتقال کیا اور وہیں ان کوغسل دیا گیا پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ جنازہ اٹھاکر باہر لائے اور دفن کیا (طبقات:۸/۱۸) آج حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر متفقہ طور پر دارِ عقیل ہی میں سمجھی جاتی ہے؛ چنانچہ محمدلبیب بک تبنونی نے جو سنہ۱۳۲۷ھ میں خدیومصر کے سفر حجاز میں ہمرکاب تھے، اپنے سفرنامہ میں اس کی تصریح کی ہے۔ (الرحلۃ الحجابیہ) اولاد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پانچ اولادیں ہوئیں، حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، محسن رضی اللہ عنہ، اُم کلثوم رضی اللہ عنہا، زینب رضی اللہ عنہا، محسن رضی اللہ عنہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور اُم کلثوم رضی اللہ عنہا اہم واقعات کے لحاظ سے تاریخ میں مشہور ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان سب سے نہایت محبت تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی ان کوبہت محبوب رکھتےتھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کویہ شرف حاصل ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل باقی رہی۔ حلیہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا حلیہ مبارک جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتاجلتا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو، لب ولہجہ اور نشست وبرخاست کاطریقہ بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا (ترمذی:۶۳۶) اور رفتار بھی بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار تھی۔ (بخاری:۲/۹۳۰) فضل وکمال حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کتب حدیث میں ۱۸/روایتیں منقول ہیں، جن کوبرے بڑے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان سے روایت کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا، حضرت سلمی رضی اللہ عنہا، ام رافع رضی اللہ عنہ اور حضر انس رضی اللہ عنہ بن مالک ان سے احادیث روایت کرتے ہیں، تفقہ پرواقعاتِ ذیل شاہد ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی سفر میں گئے تھے واپس آئے توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قربانی کا گوشت پیش کیا، ان کوعذر ہوا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اس کے کھانے میں کچھ حرج نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دیدی ہے۔ (مسند:۶/۲۸۲) ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں گوشت تناول فرمارہے تھے کہ نماز کا وقت آگیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اُٹھ کھڑے ہوئے؛ چونکہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا تھا کہ آگ پرپکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اس لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دامن پکڑا کہ وضو کرلیجئے، ارشاد ہوا: بیٹی!وضو کی ضرورت نہیں ہے، تمام اچھے کھانے آگ ہی پرتوپکتے ہیں۔ (مسند:۱/۳۸۳) فضل وکمال حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں (اصابہ:۸/۱۵۷) آپ نے ارشاد فرمایا ہے: فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب مَنَاقِبِ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْقَبَةِ،حدیث نمبر:۳۴۳۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جواس کوناراض کریگا مجھ کوناراض کریگا۔ ابوجہل کی لڑکی کوحضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا تھا، بارگاہِ نبوت یں اطلاع ہوئی توحضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرچڑھے اور حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا: إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَلَا آذَنُ ثُمَّ لَاآذَنُ ثُمَّ لَاآذَنُ إِلَّاأَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي مَاأَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَاآذَاهَا۔ (بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب ذَبِّ الرَّجُلِ عَنْ ابْنَتِهِ فِي الْغَيْرَةِ وَالْإِنْصَافِ ،حدیث نمبر:۴۸۲۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:آل ہشام، علی بن ابی طالب سے اپنی بیٹی کا عقد کرنا چاہتی ہے اور مجھ سے اجازت مانگتی ہے؛ لیکن میں اجازت نہ دونگا اور کبھی نہ دونگا؛ البتہ ابنِ ابی طالب میری بیٹی کوطلاق دے کران کی لڑکی سے نکاح کرسکتے ہیں، فاطمہ میرے جسم کاایک حصہ ہے، جس نے اس کواذیت دی مجھ کواذیت دی۔ إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي وَأَنَاأَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ قَالَ حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَاأُحِلُّ حَرَامًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَاتَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا۔ (بخاری،كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ،بَاب مَاذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَصَاهُ وَسَيْفِهِ،حدیث نمبر:۲۸۷۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اس کے بعد ابوالعاص بن ربیع کا جوآپ کے داماد تھے ذکر فرمایا کہ اس نے مجھ سے جوبات کہی اس کوسچ کرکے دکھلادیا اور جووعدہ کیا وفا کیا اور میں حلال کوحرام اور حرام کوحلال کرنے نہیں کھڑا ہوا؛ لیکن خدا کی قسم! ایک پیغمبر اور ایک دشمنِ خدا کی بیٹیاں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ جناب سیدہ رضی اللہ عنہا کی حیات تک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسری شادی نہیں کی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا شمار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چند مقدس خواتین میں فرمایا ہے جودنیا میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ قرار پائی ہیں؛ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب فَضْلِ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۳۸۱۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:تمہاری تقلید کے لیے تمام دنیا کی عورتوں میں مریم علیہ السلام، خدیجہ رضی اللہ عنہا، فاطمہ رضی اللہ عنہا اور آسیہ رضی اللہ عنہا کافی ہیں۔ زہدوورع کی یہ کیفیت تھی کہ گووہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں اور اسلام میں رہبانیت کا قلع قمع بھی کردیا گیا تھا اور فتوحات کی کثرت مدینہ میں مال وزر کے خزانے لٹارہی تھی؛ لیکن جانتے ہو کہ اس میں جگرگوشۂ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کتنا حصہ تھا؟ اس کا جواب سننے سے پہلے آنکھوں کواشکبار ہوجانا چاہیے۔ سیدۂ عالم رضی اللہ عنہا کی خانگی زندگی یہ تھی کہ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے تھے مشک میں پانی بھربھر کرلانے سے سینے پرگھٹے پڑگئے تھے، گھر میں جھاڑو دیتے دیتے کپڑے چیکٹ ہوجاتے تھے، چولہے کے پاس بیٹھتے بیٹھتے کپڑے دھوئیں سے یاسہ ہوجاتے تھے؛ لیکن بااینہمہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار گھر کے کاروبار کے لیے ایک لونڈی مانگی اور ہاتھ کے چھالے دکھائے توارشاد ہوا کہ جانِ پدر! بدر کے یتیم تم سے پہلے اس کے مستحق ہیں۔ (ابوداؤد) ایک دفعہ آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، دیکھا ہ انہوں نے ناداری سے اس قدرچھوٹا ڈوپٹہ اوڑھا ہے کہ سرڈھانکتی ہیں توپاؤں کھل جاتے ہیں اور پاؤں چھپاتی ہیں توسربرہنہ رہ جاتا ہے ؎ یوں کی ہے اہلِ بیت مطہر رضی اللہ عنہا نے زندگی یہ ماجرائے دُختر خیرالانام رضی اللہ عنہ تھا (شبلی) صرف یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کوآرائش یازیب وزینت کی کوئی چیز نہیں دیتے تھے؛ بلکہ اس قسم کی جوچیزیں ان کودوسرے ذرائع سے ملتی تھیں ان کوبھی ناپسند فرماتے تھے؛ چنانچہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کوسونے کا ہار دیا، آپ کومعلوم ہوا توفرمایا: کیوں فاطمہ! کیا لوگوں سے کہلوانا چاہتی ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی لڑکی آگ کا ہارپہنتی ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کوفورا بیچ کراس کی قمیت سے ایک غلام خریدلیا۔ ایک دفعہ آپ کسی غزوہ سے تشریف لائے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بطورِ خیرمقدم کے گھر کے دروازے پرپردے لگائے اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کوچاندی کے کنگن پہنائے، آپ حسب معمول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے تواس دنیوی سازوسامان کودیکھ کرواپس گئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکوآپ کی ناپسندیدگی کا حال معلوم ہوا توپردہ چاک کردیا اور بچوں کے ہاتھ سے کنگن نکال ڈالے، بچے آپ کی خدمت میں روتے ہوئے آئے آپ نے فرمایا: یہ میرے اہلِ بیت ہیں، میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ ان زخارف سے آلودہ ہوں، اس کے بدلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک عصیب کا ہار اور ہاتھی دانت کے کنگن خریدلاؤ۔ (یہ تمام واقعات ابوداو۷د اور نسائی میں مذکور ہیں) صدق وراستی میں بھی ان کا کوئی حریف نہ تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَارَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَصْدَقَ لَهْجَةً مِنْ فَاطِمَةَ إلَّاأَنْ يَكُونَ الَّذِي وَلَدَهَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر:۴۷۳۹، شاملہ، موقع جامع الحدیث۔ الاستیعاب:۲/۷۷۲) ترجمہ:میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کوصاف گونہیں دیکھا؛ البتہ ان کے والد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ حددرجہ حیادار تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوطلب فرمایا توہ شرم سے لڑکھڑاتی ہوئی آئیں، اپنے جنازہ پرپردہ کرنے کی جووصیت کی تھی وہ بھی اسی بناپرتھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت کرتی تھیں، جب وہ خوردسال تھیں اور آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے توعقبہ بن ابی معیط نے نماز پڑھنے کی حالت میں ایک مرتبہ آپ کی گردن پراونٹ کی اوجھ لاکرڈال دی، قریش مارے خوشی کے ایک دوسرے پرگرے پڑتے تھے، کسی نے جاکر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کوخبر کی وہ اگرچہ اس وقت صرف پانچ یاچھ برس کی تھیں؛ لیکن جوشِ محبت سے دوڑی آئیں اور اوجھ ہٹاکرعقبہ کوبرابھلا کہا اور بددعائیں دیں۔ (بخاری:۱/۳۸،۷۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے نہایت محبت کرتے تھے، معمول تھا کہ جب کبھی سفر فرماتے توسب سے پہلے باریاب خدمت ہوتا وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی ہوتیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آپ کی خدمت میں تشریف لاتیں توآپ کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چومتے اور اپنی نشست سے ہٹ کراپنی جگہ پربٹھاتے۔ آپ ہمیشہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے تعلقات میں خوشگواری پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے؛ چنانچہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا میں کبھی کبھی خانگی معاملات کے متعلق رنجش ہوجاتی تھی توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں صلح کرادیتے تھے، ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا آپ گھر میں تشریف لے گئے اور صفائی کرادی، گھرسے مسرور نکلے، لوگوں نے پوچھا آپ گھر میں گئے تھے تواور حالت تھی، اب آپ اس قدر خوش کیوں ہیں؟ فرمایا میں نے ان دوشخصوں میں مصالحت کرادی ہے جومجھ کومحبوب ترہیں۔ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان پرکچھ سختی کی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کرچلیں پیچھے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے شکایت کی، آپ نے فرمایا: بیٹی! تم کوخود سمجھنا چاہئے کہ کون شوہر اپنی بی بی کے پاس خاموش چلاآتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ پراس کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اب میں تمہارے خلافِ مزاج کوئی بات نہ کرونگا۔