انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** لشکر اسلام کی روانگی جب صحابہؓ ہمہ تن مستعد و تیار ہوگئے تو حضور اکرم ﷺ تیس ہزار فوج کے ساتھ رجب ۹ ہجری میں مدینہ سے نکلے جس میں دس ہزار گھوڑے تھے، مدینہ میں حضرت محمدؓ بن مسلمہ کو اور ایک اور روایت کے بموجب حضرت سباع ؓ عرفطہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا، چونکہ اس غزوہ میں ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی آپﷺ کے ساتھ نہیں گئیں تھیں اس لئے اہلِ حرم کی حفاظت کے لئے کسی عزیزِ خاص کا رہنا ضروری تھا، آپﷺ نے ان کی دیکھ بھال کے لئے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا لیکن انھوں نے شکایت کی کہ آپﷺ مجھ کو بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ کے ساتھ تھی، یعنی جس طرح حضرت موسیٰؑ کوہِ طور پر جاتے وقت حضرت ہارونؑ کو اپنا قائم مقام بنا گئے تھے اسی طرح میں تم کو اس سفر میں اپنا قائم مقام بنا رہا ہوں ، حضرت علیؓ اس جواب سے مطمین ہوگئے (سیرت النبی) رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبی بن سلول ایک گروہ لے کر آپﷺ کے ہمراہ ہوگیا؛ لیکن تھوڑی دور چل کر معہ اپنے ہمراہیوں کے واپس چلاگیا۔