انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وزیراعظم ابتداء میں خلیفہ کا ایک ہی وزیر ہوتا تھا اور وہ ہرایک اعتبار سے خلیفہ کا نائب یاقائم مقام اور تمام صیغوں کا افسر ہوتا تھا، بعد میں جب یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص تمام محکموں کی پوری ذمہ داری نہیں لے سکتا تووزیراعظم کے ماتحت الگ الگ صیغوں کے وزیربھی مقرر ہونے لگے، وزیراعظم کوابتدائی خلفاء کے عہدمیں صرف وہی اختیارات حاصل ہوتے تھے جوخلیفہ تفویض کردیتا تھا، بہت سے معاملات ایسے ہوتے تھے جن کوکرنے کا اختیار خلیفہ کے سوا کسی دوسرے کونہ ہوتا تھا، وہاں وزیراعظم خلیفہ کومشورہ دے سکتا تھا، اس قسم کے مشورے لینے میں صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ دوسرے اراکین سلطنت کوبھی خلیفہ تکلیف دیا کرتا تھا، بعض خلیفہ مثلاً ہارون الرشید نے اپنے وزیراعظم کوسلطنت کے ہرایک معاملہ میں کلی اختیارات عطا کردیے تھے، وزیراعظم ہی ہرقسم کے احکامات جاری کردیتا اور خلیفہ کواپنے جاری کردہ اہم احکام کی صرف اطلاع دیتا تھا، ایسے بااختیار وزیروں کا مرتبہ بہت ہی بلند ہوتا تھا اور وہ درحقیقت خلیفہ سے بھی زیادہ سیاہ وسفید کے مالک سمجھے جاتے تھے، بعد میں جب خلفاء بہت کمزور ہونے لگے اور دیلمی امیرالامراء یاسلجوقی سلاطین خلافت پرمسلط ہوگئے، خلیفہ کا وزیراعظم الگ ہوتا اور ان سلاطین کا وزیراعظم جدا ہوتا تھا، اس زمانہ میں خلیفہ کی وزارت کوئی بہت بڑی چیز نہیں سمجھی جاتی تھی، اس دوعملی کے زمانہ میں بعض اوقات خلیفہ کے وزیر کورئیس الرؤسا اور سلطان کے وزیرکووزیر کہتے تھے، بعض اوقات خَیفہ کے وزیر کوخلیفہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوتے تھے اور جب کہ خلیفہ کا وزیرسلطان نے مقرر کیا ہوتوخلیفہ اپنے وزیر کا قیدی ہوتا تھا۔ وزیراعظم کا انتخاب عموماً خلیفہ اپنی ذاتی واقفیت کی بناپرکرتا تھا اور بعض اوقات وہ نہایت معمولی طبقہ میں سے ایک شخص کوخلعت وزارت دے کرسب سے اعلیٰ مقام پرپہنچا دیتا تھا او رکبھی ایک وزیر کے بعد اس کے بیٹے کووزارت کا عہدہ دیا جاتا تھا، جعفر برمکی وزیرہارون الرشید، فضل وزیرمامون الرشید، نظام الملک وزیرالپ ارسلان وملک شاہ بہت مشہور وزیر ہیں۔