انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسیرؓ ان کے بارہ میں صرف اس قدر معلوم ہے کہ آنحضرتﷺ کے صحابی تھے،مگر اس گمنامی کے باوجود ان کی زندگی سبق سے خالی نہیں ہے،امتِ اسلامیہ کے اتحاد واتفاق کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھےاور اختلافات اورتفریق سے بچنے کے لئے ناگوار امور بھی انگیز کرلیتے تھے،یزید کے زمانہ میں زندہ تھے اورامت کے اتحاد و اتفاق کی خاطر یزید کی نااہلیت کو مانتے ہوئے اس کی بیعت میں مضائقہ نہ سمجھتے تھے، اسی زمانہ میں کچھ لوگ ان کے پاس آئے،انہوں نے ان سے کہا، لوگ کہتے ہیں کہ یزید اس امت کا بہتر شخص نہیں ہے، عقل و فراست سے بھی خالی ہے،شرافت کے لحاظ سے بھی وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، میں ان تمام باتوں کو مانتا ہوں،لیکن مجھ کو رسول اللہﷺ کی امت کے تشتت و افتراق کے مقابلہ میں اس کا اتحاد واتفاق زیادہ عزیز ہے، اگر تمام امتِ محمدی ایک دروازہ میں داخل ہو جائے،تو کیا اس میں ایک شخص کی گنجائش نہیں رہے گی، لوگوں نے کہا کیوں نہیں،پھر پوچھا اگر امتِ مسلمہ کا ہر شخص یہ عہد کرلے کہ میں اپنے بھائی کا خون نہ بہاوں گا اوراس کے مال پر دست درازی نہ کروں گا، تو کیا اس کا یہ عہد حق بجانب نہ ہوگا، لوگوں نے جواب دیا ضرور ہوگا، فرمایا میں بس یہ تو کہتا ہوں۔ پھر آنحضرتﷺ کا یہ فرمان سنایا کہ"جیسا ہر حالت میں بہتر ہے" ایک شخص نے کہا میں نے لقمان کے قصص میں دیکھا ہے کہ بعض حیا کمزوری ہوتی ہےاوربعض حیاوقار، قولِ رسول کے مقابلہ میں لقمان کا قول سن کر سخت برہم ہوگئے، فرطِ غضب میں ہاتھ تھر تھرانے لگا اوراس شخص سے کہا تم میرے گھر سے نکل جاؤ، تم کو یہاں کس نے بلایا تھا، ایک شخص نے کسی طرح ان کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ (طبقات بن سعد،جلد۱،قسم۱:۴۷)