انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابوبکرہؓ نام ونسب نفیع نام، ابوبکرہ کنیت، باپ کا نام مسروح تھا، امیر معاویہ کے مشہور گورنر زیاد کے ماں جائے بھائی تھے،طائف کے ایک رئیس کی غلامی میں تھے۔ اسلام وآزادی جب آنحضرتﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تو عام اعلان فرمایا کہ جو آزاد ہم سے مل جائے گا وہ مامون ہے اور جو غلام چلا آئیگا وہ آزاد ہے،یہ اعلان سن کر رؤسائے طائف کے بہت سے غلام اسلام کے دامنِ حریت میں آگئے، ان میں ایک ابوبکرہ بھی تھے،اعلان کے مطابق آپ نے انہیں آزاد فرمادیا،لیکن آزادی کے بعد ہی وہ اپنے کو آقائے دوعالم کا غلام ہی کہتے رہے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق اول،صفحہ:۹) لوگوں سے کہتے تھے میرے لیے یہ فخر کافی ہے کہ تمہارا دینی بھائی اورسرکار رسالت کا غلام ہوں اوراگر تم لوگوں کو آبائی نسبت پر اصرار ہےتو نفیع بن مسروح کہا کرو (اسد الغابہ:۵/۱۵۱) آزادی کے بعد قدیم آقا نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرا غلام میرے حوالہ کیا جائے،آپ نے فرمایا،وہ خدا ورسول کے آزاد کردہ ہیں، اس لیے اب واپس نہیں کئے جاسکتے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۱،صفحہ۹) حدقذف کا اجراء حضرت عمرؓ کے آغازِ خلافت تک دیار حبیب ہی میں رہے، بصرہ آباد ہونے کے بعد یہاں سکونت اختیار کرلی، اسی زمانہ میں زنا کے ایک مقدمہ میں بحیثیت شاہد پیش ہوئے، لیکن شہادت ناکافی تھی اس لیے ان پر حدِ قذف جاری ہوئی، اس کے بعد عہد کر لیا کہ آیندہ سے کسی دو آدمیوں کے درمیان شہادت نہ دیں گے۔ (استیعاب واسد الغابہ:۱۵۱) فتنہ سے کنارہ کشی حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب دورِ فتن کا آغاز ہوا اوربڑے بڑے لوگ اس میں مبتلا ہوگئے، اس وقت ابوبکرہ نے اپنا دامن بچائے رکھا،فرماتے تھے کہ جنگ جمل میں قریب تھا کہ میں اصحاب جمل کے ساتھ ہوجاؤں ،مگر رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان نے کہ جس قوم نے اپنا حاکم عورتوں کو بنایا،وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتی ،مجھے بچالیا۔ (بخاری کتاب النبی ﷺ الی کسری وقیصر) جنگِ صفین سے بھی علیحدہ رہے اور حتی الامکان دوسروں کو بھی ان خانہ جنگیوں میں شرکت سے بچا نے کی کوشش کی،ایک شخص ہتھیار لگا کر حضرت علیؓ کی مدد کو جارہا تھا،راستہ میں ابوبکرہ ملے،پوچھا کہاں کا قصد ہے،اس نے کہا ابن عم رسول اللہ کی مدد کو جارہا ہوں، ابوبکرہ نے کہا رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بھی سنا ہے کہ جب دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکالیں تو دونوں جہنمی ہیں۔ (بخاری کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما) وفات امیر معاویہ کے عہدِ حکومت میں بصرہ میں وفات پائی۔ اولاد حضرت ابوبکرہؓ اولاد کی جانب سے بڑے خوش نصیب تھے،اپنے بعد متعدد لڑکے عبداللہ ،عبید اللہ،عبدالرحمن،عبد العزیز، مسلم، رواد، یزید اورعقبہ وغیرہ یاد گار چھوڑے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق اول،صفحہ:۱۳۸،۱۳۹) عبید اللہ ہجستان کے گورنرتھے،عبیداللہ کے علاوہ اورلڑکے بھی علم وفضل اورمال و زر سے مالا مال تھے۔ فضل وکمال گو ابوبکرہ بہت آخر میں مشرف باسلام ہوئے،لیکن غلامی کی نسبت سے نہیں آنحضرتﷺ کی صحبت اور آپ کے سر چشمۂ فیض سے استفادہ کا کافی موقع ملا؛چنانچہ ان سے ۱۳۲ حدیثیں مروی ہیں،ان میں سے آٹھ متفق علیہ ہیں،اورپانچ میں امام بخاری منفرد ہیں،ان سے روایت کرنے والوں میں زیادہ تر ان کے صاحبزادگان ہیں۔ (تہذیب الکمال:۴۰۴) ذوقِ عبادت وہ زہد وورع کا ایک پیکر مجسم تھے،عبادت وریاضت انکا مشغلہ حیات تھا جو آخری لمحہ تک قائم رہا، کان ابوبکرہ کثیرا لعبادۃ حتی مات۔ (اسد الغابہ :۵/۱۵۱)