انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** زیاد بن ابی سفیان کوفہ میں زیاد بن ابی سفیان کوبصرہ وکوفہ دونوں جگہ کی حکومت سپرد کرنے میں یہ بھی مصلحت تھی کہ جس طرح وہ تمام اہل عراق کوبیعت یزید پرآمادہ کرنے کی خدمت انجام دے سکتے تھے کوئی دوسرا اس کام کوبہ حسن وخوبی پورا نہیں کرسکتا تھا، مغیرہ بن شعبہ کے مزاج میں کسی قدر نرمی اور درگذربھی تھی؛ لیکن زیاد بن ابی سفیان عراقیوں کے مزاج سے خوب واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ جب تک ان کے ساتھ سختی نہ برتی جائے یہ راہِ راست پرقائم نہیں رہ سکتے؛ اسی لیے ان کی حکومت کا زمانہ بہت کامیاب رہا اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جوکوفہ وبصرہ دونوں کے حاکم مقرر ہوئے اور بعد میں تمام ایران وخراسان بھی ترکستان تک ان کے سپرد کردیا گیا تھا، زیاد بن ابی سفیان نے بصرہ میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کواپنا نائب مقرر کیا اور خود کوفہ کودوہزار آدمی لے کرروانہ ہوئے، کوفہ کی جامع مسجد میں جاکر جب پہلی مرتبہ انھوں نے خطبہ سنانا شروع کیا تواہل کوفہ نے جواپنے حاکموں کی تحقیر اور حکومتِ وقت کی خلاف ورزی کے عادی تھے ان کے ساتھ بھی تمسخرانہ برتاؤ شروع کیا، یعنی چاروں طرف سے ان کی جانب سنگریزے آنے لگے، زیاد نے فوراً خطبہ بند کرکے اپنے ہمرائیوں کوحکم دیا کہ مسجد کا محاصرہ کرکے کسی شخص کوباہر نہ نکلنے دیں؛ پھرمسجد کے دروازے پرکرسی بچھا کربیٹھ گئے اور چار چار شخصوں کوبلاکر قسمیں لینے لگےکہ انھوں نے سنگریزے پھینکے ہیں یانہیں؟ کل تیس آدمی ایسے نکلے جنھوں نے سنگریزے پھینکے تھے، باقیوں کوچھوڑ کر ان تیس کے ہاتھ کٹوادیئے؛ اسی طرح اور بعض سخت سزائیں اہلِ کوفہ کوان کی غلطیوں پردی گئیں توچند روز میں وہ بالکل سیدھے ہوگئے، زیادہ چھ مہینے کوفہ میں اور چھ مہینے بصرہ میں رہنے لگے۔ حضر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کے نام ایک حکم جاری کیا کہ لوگوں سے یزید کی خوبیاں بیان کرو اور اپنے اپنے علاقوں کے بااثرلوگوں کا ایک ایک وفد میرے پاس بھیجو کہ میں بیعتِ یزید کی نسبت لوگوں سے خود بھی گفتگو کروں؛ چنانچہ ہرصوبے سے ایک ایک وفد دمشق میں آیا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے الگ الگ بھی گفتگو کی؛ پھرایک مجلس ترتیب دے کرسب کواس میں جمع کیا اور کھڑے ہوکر ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حمد وثنا کے بعد اسلام کی خوبیاں، خلفاء کے فرائض وحقوق حکام کی اطاعت اور عوام کے فرائض بیان فرماکر یزید کی شجاعت، سخاوت، عقل وتدبر اور انتظامی قابلیت کا ذکر کرکے اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ یزید کی ولی عہدی پربیعت کرلینی چاہیے، ان وفود میں مدینے سے محمد بن عمروبن حزم گئے تھے؛ انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ امیرالمؤمنین! آپ یزید کوخلیفہ توبنائے جاتے ہیں؛ لیکن ذرا اس بات پربھی غور فرمالیں کہ قیامت کے دن آپ کواپنے اس فعل کا خدائے تعالیٰ کی جناب میں جواب دہ ہونا پڑے گا، امیرمعاویہ رضی الہ عنہ نے یہ سن کرفرمایا کہ میں آپ کا شکرگذار ہوں کہ آپ نے اپنی رائے کے موافق میری خیرخواہی کی؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت لڑکے ہی لڑکے رہ گئے ہیں اور میرا بیٹا ان میں زیادہ مستحق ہے، اس کے بعد ضحاک بن قیس کھڑے ہوئے؛ انھوں نے اپنی زبردست تقریر میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خیال کی خوب زورشور سے تائید کی، ان کے بعد اور لوگ یکے بعد دیگرے کھڑے ہوئے اور سب نے تائید ہی کی۔ مصر سے احنف بن قیس رضی اللہ عنہ گئے تھے، جب سب کی تقریریں ہوچکیں توامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہوکر پوچھا کہ آپ کیوں خاموش ہیں؟ انھوں نے کہا کہ اگرجھوٹ بولوں توخدا سے ڈرلگتا ہے اور سچ بولوں توآپ کا خوف ہے، آپ ہم سے اس معاملہ میں مشورہ کیوں لیتے ہیں، آپ ہم سے زیادہ یزید کی حالت سے واقف ہیں، آپ کی ذمہ داری پرہم بیعت کرنے کوتیار ہیں، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ کوبھی بہت غنیمت سمجھا اور بعد میں ان کوبھاری انعام دیکر خوش کیا؛ اسی طرح باہر سے آئے ہوئے وفود کوخوب انعام واکرام سے مالا مال وخوش حال کرکے واپس بھیجا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کوسب سے زیادہ حجاز یعنی مکہ ومدینہ کے لوگوں کا خیال تھا اور وہیں ایسے لوگ موجود تھے جوجرأت کے ساتھ اظہارِ مخالفت کرسکتے تھے؛ انھوں نے سنہ۵۱ھ کے آخر ایام میں حج بیت اللہ کا ارادہ کیا، مصلحت اس میں یہ بھی تھی کہ وہ اہلِ حجاز کواپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہوں؛ چنانچہ وہ اوّل مدینہ منورہ پہنچے، ان کی آمد کی خبر سن کرعبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور حسین رضی اللہ عنہم مدینہ سے مکہ کوچلے گئے؛ انھوں نے مدینہ پہنچ کرلوگوں کوخوب انعام واکرام دیئے اور اُن کے دلوں پرقبضہ پاکر اپنا ہم خیال بنایا اور مروان بن حکم کوسمجھایا کہ مدینے والوں کے روزینے بڑھادو، ان کوقرض کی ضرورت ہوتو بلادریغ بیت المال سے قرض دو اور قرض کی وصولی کا تقاضا نہ کرو، جس سے مخالفت کا زیادہ اندیشہ ہو؛ اس طرح ان کوزیربار احسان بناؤ، اس کے بعد مکہ کی طرف روانہ ہوئے، وہاں مذکورہ بالا چاروں حضرات کواپنے پاس بلایا اور یزید کی بیعت کے معاملہ میں گفتگو کی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں صرف اس قدر اقرار کرسکتا ہوں کہ تمہارے بعد جس شخص کی خلافت پرلوگ متفق ہوجائیں گے میں اسی کوخلیفہ تسلیم کرلوں گا؛ اگرایک حبشی غلام کوبھی لوگ خلیفہ بنالیں گے تومیں اس کی بھی اطاعت کروں گا اور جماعت کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آپ کے سامنے چند باتیں پیش کرتے ہیں آپ ان میں سے جس کوچاہیں اختیار فرمالیں، اوّل یہ کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کریں اور خلافت کے معاملے کوویسے ہی بلانامزدگی مسلمانوں کے انتخاب پرچھوڑ جائیں کہ وہ جس کوچاہیں خلیفہ بنالیں اور اگرآپ کویہ پسند نہیں ہے توسنتِ صدیقی پرعمل کریں کہ ایسے شخص کواپنا قائم مقام مقرر فرماجائیں جونہ آپ کی قوم کا ہو نہ خاندان کا، یہ بھی پسند نہ ہوتوپھرآپ سنتِ فاروقی پرعامل ہوں کہ ایسے چھ شخصوں کونامزد کرجائیں جونہ آپ کے خاندان وقبیلے کے ہوں نہ اُن میں آپ کا بیٹا ہو، وہ چھ شخص آپنے آپ میں سے جس کوچاہیں خلیفہ منتخب کرلیں، ان تینوں صورتوں کے سوا اور کوئی صورت چوتھی نہیں جس پرہم رضامند ہوسکیں، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کی تائید باقی صاحبوں نے بھی کی، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے حج سے فارغ ہوکر مذکورہ حضرات کے سوا باقی تمام اہلِ مکہ سے یزید کی ولیعہدی کے متعلق بیعت لی اور لوگوں کواپنی جود وعطا سے مالا مال کیا، اس میں شک نہیں کہ لوگوں کویزید کے معاملے میں اپنا ہم خیال وہم نوابنانے کے لیئے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے مال ودولت سے زیادہ کام لیا اور ممکن ہے کہ وہ یزید کی نامزدگی وولیعہدی کوحقیقتاً عالم اسلام کے لیئے زیادہ مفید اور مسلمانوں کی فلاح وصلاح کا موجوب یقین کرتے ہوں اور اس کے مضرپہلو قطعاً ان کی نگاہ کے سامنے نہ آئے ہوں، حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر وہ واپس دمشق میں آئے توخبر سنی کہ کوفہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد کوبصرہ وکوفہ کا حاک توپہلے ہی بنادیا تھا اور سجستان کا علاقہ ان کے ماتحت تھا، اب انھوں نے مناسب سمجھا کہ سندھ وکابل بلخ وجیون وترکستان تک کے تمام مشرقی ممالک زیاد کے ماتحت مقرر کردیئے جائیں؛ چنانچہ زیاد کا مرتبہ اب اس قدر بلند ہوگیا کہ وہ خود فارس وخراسان وغیرہ صوبوں کے گورنر اپنے اختیار سے مقرر کرتے اور جس کوچاہتے معزول کردیتے، زیاد نے ان تمام مشرقی ممالک کا انتظام بڑی قابلیت اور خوبی کے ساتھ قائم رکھا اور خوارج کوبھی سراُبھارنے کا موقع نہیں دیا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کوزیاد کی وجہ سے بہت بڑی امداد ملی اور ایسے لائق اور قابل شخص کا ہاتھ آجانا ان کی خوش قسمتی تھی؛ اگرزیاد ان مشرقی ممالک میں امن وامان قائم نہ رکھ سکتے توخوارج کے خروج اور منافقوں کے فتنے برپا ہوکر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کواتنا ہوش ہی نہ لینے دیتےکہ وہ یزید کی بیعت کے اہتمام وانصرام میں اطمینان سے مصروف ہوسکتے، ادھر مشرقی ممالک کے ہنگاموں کا مغربی ممالک پربھی بہت برا اثر پڑتااور قیصری حملوں سے بھی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کواطمینان وسکون حاصل نہ ہوتا۔ مصروافریقہ وغیرہ کا حاکم حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمہ بن مخلد کوعبداللہ بن عمرو کے بعد مقرر فرمایا تھا، عقبہ بن نافع فہری جوطرابلس الغرب اور الجیریا ومرا کوکی طرف پیش قدمی کررہے تھے اور جن کوحضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے خود اس مہم پرنامزد ومامور فرماکرروانہ کیا تھا، اب مسلمہ بن مخلد گورنرمصر کے ماتحت کردیئے گئے تھے، مدینہ میں مروان بن حکم اور مکہ میں سعید بن العاص حاکم تھے، شام وفلسطین براہِ راست حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے زیرانتظام تھے، ادھرعقبہ بن نافع فہری نے شمالی افریقہ کی ضرورتوں کومدنظر رکھ کرشہر قیروان کی آبادی کا سنگِ بنیاد ایک جنگل کوصاف کرکے رکھا، افریقہ کے لیئے قیروان کی فوجی چھاؤنی ایسی ضروری تھی، جیسی عراق کے لیئے بصرہ وکوفہ سنہ۵۵ھ میں قیروان کی آبادی پایۂ تکمیل کوپہنچی تھی کہ مسلمہ بن مخلد نے عقبہ بن نافع کومعزول کرکے ان کی جگہ اپنے ایک غلام ابوالمہاجر کوسپہ سالار مقرر کردیا، عقبہ بن نافع دمشق میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے، مروان وسعید وعقبہ وغیرہ کئی صاحب الرائے اور صاحب عزم وہمت سرداروں کے دمشق میں موجود ہوجانے اور زیاد بن ابی سفیان کے اکثربلاد اسلامیہ پرمستولی ہوجانے کے بعد سنہ۵۶ھ میں یزید کی ولیعہدی کے لیئے تمام عالمِ اسلام میں عالموں کی معرفت بیعت عام لی گئی، صرف تین چار شخص یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حسین بن علی رضی اللہ عنہ وغیرہ نے بیعت نہیں کی، ان لوگوں نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کوان کے حال پرچھوڑ دیا اور زیادہ مجبور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔