انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** احکام شرعیہ اور عقل اسلام کی اصل بنیاد اس عقل پر نہیں جو خواہشات ِ نفس کی غلام ہو بلکہ اس عقل پر ہے جو اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی ہدایات کی پابند ہواور اپنے حدود ِکار سے اچھی طرح واقف ہو اور یہی عقل سلیم کی تعریف ہے۔ اللہ تعالی کے دیے ہوئے احکام عقل سلیم کی عین مطابق ہیں اور تجربہ اس کا گواہ ہے کہ صلاح وفلاح کا اس سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا ؛چنانچہ اس کے ہر حکم میں بہت سی حکمتیں مصلحتیں اور انسانیت کے فوائد مضمر ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہماری محدود عقل ان تمام مصلحتوں اور حکمتوں کا احاطہ بھی کرسکے ،ظاہر ہے کہ وہ خالق کائنات جس کے سامنے زمین وآسمان کی تمام موجودات اور ماضی ومستقبل کے تمام حالات ہیں اس کے علم وحکمت کا کون احاطہ کرسکتا ہے ،لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ قرآن وسنت کے کسی حکم کی حقیقی حکمت ومصلحت ہماری سمجھ میں نہ آئے ،لیکن کسی حکم کی حکمت سمجھ میں نہ آنے کا یہ نتیجہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ اس حکم ہی کو درست تسلیم نہ کیا جائے ،کیونکہ اگر انسان کو اپنے فائدہ کی تمام باتیں سمجھ میں آسکتی تھیں تو پیغمبروں کو بھیجنے اور آسمانی کتابیں نازل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی وحی اور رسالت کا مقدس سلسلہ تو جاری ہی اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کو ان باتوں کی تعلیم دی جاسکے جس کا ادراک نری عقل سے ممکن نہیں اس لیے اگر اللہ پر اس کی قدرت کاملہ پر اس کے علم محیط پر اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کے نازل کیے ہوئے ہر حکم کی پوری پوری مصلحت کا بالکلیہ سمجھ میں آجاناضروری نہیں اور اگر اس کا کوئی حکم ہماری محدودعقل ونظر سے ماوراء ہو تو اسے ماننے سے انکار کرنا کوئی معقول طرز عمل نہیں ۔