انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** رعایا کی دادرسی ایک عادل فرمانروا کے لئے رعایا کی شکایات سننا اوراس کی داد رسی ضروری ہے، امیر معاویہؓ کو اس میں اتنا اہتمام تھا کہ وہ روزانہ مسجد میں بیٹھ کر عام رعایا کو بلا استثناء آزادی سے اپنی شکایات پیش کرنے کا موقع دیتے تھے۔ علامہ مسعودی لکھتے ہین کہ امیر معاویہؓ مسجد میں کرسی رکھواکر بیٹھتے تھے اور بلا استثناء ضعیف ،کمزور،دیہاتی بچے اور لاوارث سب پیش کئے جاتے تھے اوران میں ہر شخص ان کے سامنے اپنی اپنی شکایتیں پیش کرتا تھا، امیر معاویہؓ اسی وقت ان کے تدارک کا حکم دیتے تھے،مظلوموں کی فریاد رسی کے بعد پھر ایوان حکومت میں آتے اورتخت پر بیٹھتے اس وقت امراء اوراشراف درجہ بدرجہ باریاب ہوتے ،معمولی مزاج پرسی کے بعد جب یہ لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے تو امیروں سے فرماتے کہ تم لوگ اشراف اس لئے کہلاتے ہو کہ تم کو اپنے سے کم درجہ کے لوگوں پر شرف بخشا گیا ہے، اس لئے تم کو چاہیے کہ جو شخص میرے پاس نہیں پہنچ سکتا، اس کی ضروریات مجھ سے بیان کرو، اس کے بعد اشراف لوگوں کی ضروریات پیش کرتے اورامیران سب کے پورا کرنے کا حکم دیتے۔ (مروج الذہب مسعودی:۲/۴۲۳،مطبوعہ مصر) یہی حال ان کے عمال کا تھا زیاد گورنر جنرل عراق کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے اس کو کثرت کار اورذمہ داری کے بار کی وجہ سے عوام سے ملنے جلنے اوران کی شکایات سننے کا براہ راست کم موقع ملتا تھا، اس کی تلافی کے لئے اس نے اپنے حاشیہ نشینوں کو حکم دیا تھا کہ ہر شخص نہ مجھ تک پہنچ سکتا ہے اوراگرکوئی شخص پہنچ بھی جائے تو گفتگو کا موقع نہیں پاسکتا، اس لئے تم لوگ عوام کے حالات میرے گوش گذار کرتے رہو۔ (یعقوبی:۲/۲۷۹)