انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمروبن عوفؓ نام ونسب عمرونام،ابوعبداللہ کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے،عمروبن عوف بن زید بن ملیحہ ابن عمروبن بکر بن افرک بن عثمان بن عمروبن اوبن طانجہ بن ایساس بن مضر۔ اسلام وہجرت عمروبن عوفؓ ابتدائے دعوتِ اسلام میں مشرف باسلام ہوئے اورآنحضرتﷺ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آئے۔ (استیعاب:۲/۴۵۰) غزوات ابن سعد کی روایت کے مطابق سب سے پہلے غزوۂ ابواء میں شریک ہوئے ؛لیکن بعض خندق بتاتےہیں۔ (اصابہ:۵/۹) غزوۂ تبوک غزوۂ تبوک کے زمانہ میں عرب میں ایسا سخت قحط تھا کہ ذی حیثیت صحابہ کے لیے اس میں شریک ہونے کا انتظام مشکل تھا ،نادار صحابہ کا تو ذکر ہی نہیں؛چنانچہ جب آنحضرتﷺ نے غزوۂ تبوک کے لیے تیاریاں شروع کیں اور دولتمند صحابہ نے اپنا سازوسامان درست کیا تو وہ صحابہ جو ایمان کی لازوال دولت کے سوا مادی دولت سے تہی دامن تھے، خدمت نبوی میں حاضر ہوئے،ان میں حضرت عمروؓ بھی تھے، ان سب نے مل کر درخواست کی کہ ہم بالکل بے مایہ ہیں،اگر ہمارے لیے کچھ انتظام فرمایا جائے، تو ہم بھی شرف جہاد سے محروم نہ رہیں،یہاں فقر وفاقہ کے سوا کیا تھا، جواب ملا، میرے پاس کیا ہے یہ لوگ جہاد کی محرومی پر غمگین وملول روتے ہوئے واپس ہوئے، مگر ان آنسوؤں نے دامن رحمت کو نم کردیا اور اس حکم نے ان کو جہاد سے مستثنیٰ کردیا۔ (تفسیر ابن جریر:۱۰/۱۳۶) وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ (توبہ:۹۲) اورنہ ان لوگوں پر الزام ہے جو تمہارے پاس آئے کہ ان کو سواری بہم پہنچادو تو تم نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر تم کو سوار کروں (یہ سن کر) وہ لوٹ گئے اورخرچ نہ میسر آنے کے غم میں ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ وفات امیر معاویہؓ کے عہدِ خلافت میں مدینہ میں وفات پائی۔ (استیعاب:۲/۴۵۱)