انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ (م:۹۷۳ ھ) ۱۔طلبہ کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اپنے نفس کو عمل سے فارغ رکھیں اوریہ سمجھیں کہ پہلے علم حاصل کرلیں،فارغ ہوکر عمل کی طرف متوجہ ہوں گے،یہ شیطانی وسوسہ ہے جس کے ذریعہ شیطان ان کو زائد علوم میں جن کی ضرورت دین میں شاذ ونادر واقع ہوتی ہے، مشغول رکھتا ہے اورعمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ (لطائف المنن والاخلاق للشعرانی،ص:۳۷۴) ۲۔میں چاہتا ہوں کہ علماء وطلبہ کوئی ہنر اورصنعت ضرور سیکھیں جس سے ان کا معاش حاصل ہو، تاکہ وہ دنیا کے بدلے دین کو فروخت نہ کریں اورلوگوں کے صدقات وخیرات پر ان کی نظریں نہ جائیں؛ کیونکہ (بلاضرورت شدیدہ ناجائز طور پر) صدقات کے کھانے سے ان کی عقل کانور مٹ جاتا ہے بخلاف طعام حلال کے کہ اس سے نور عقل بڑھتا ہے۔ (لطائف المنن والا خلاق للشعرانی،ص:۳۷۴) ۳۔ایک مرتبہ میں ایسے حکماء کی ایک مجلس میں پہنچ گیا جو اپنے کھانے پینےکی چیزوں میں احتیاط نہ کرتے تھے، میں نے دیکھا کہ ان کے تمام علمی سوالات ومذاکرات ایسے واہی اوربے کار امور کے متعلق تھے جو علماء کی شان سے بہت گرے ہوئے تھے،میں نے سمجھ لیا کہ یہ سب اسی مشتبہ کھانے کا وبال ہے۔ (لطائف المنن والاخلاق للشعرانی،ص:۳۷۴) شیخ عبد الوہاب شعرانی ؒ فرماتے ہیں کہ میرے بیٹے عبدالرحمن کو ابتداء میں علم کا شوق نہ تھا، میں اس کی وجہ سے بہت تنگ دل اورپریشان رہتا تھا، حق تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں اس معاملہ کو حق تعالی کے سپرد کردوں میں نے ایسا ہی کیا، اسی رات بفضل ایزدی اس کو علم کا شوق پیدا ہوگیا اوربغیر میرے کہنے کے خود تحصیل علم میں محنت کرنے لگا اوراپنے ہم سبقوں سے آگے بڑھ گیا،حق تعالیٰ نے مجھے ایک بڑی تکلیف سے راحت عطا فرمادی۔ امام شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ علی خواص ؒ سے سنا: ((ماثم انفع لاولاد العلماء والصالحین من الدعاء لھم بظھر الغیب مع تفویض امرھم الی اللہ تعالیٰ)) "معاملہ تربیت میں علماء وصالحین کی اولاد کے لئے کوئی چیز ایسی نافع نہیں جیسی پس پشت ان کے لئے دعا کرنا اوران کےمعاملہ کو حق تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے۔ (تنبیہ المغترین،ص:۸) (۱)علمِ نافع وہ ہے جس میں اخلاص و ارادت ہو ، اور اخلاص کی علامت یہ ہے کہ لوگوں کے خیالات اور تکلیف دہ باتوں سے رنجیدہ نہ ہو اور تعریف کے کلمات سے مسرور نہ ہو؛ نیز وہ شخص ہمیشہ حصولِ علم میں نہ لگا رہے بلکہ کچھ حصہ عبادت و ریاضت کے لئے بھی مخصوص رکھے ۔ (۲)سچا درویش وہ ہے جو اپنے نفس سے لوگوں کے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے یعنی لوگوں کے حقوق ادا کرتا ہے اور اپنے نفس کے حقوق کا مخلوق سے مطالبہ نہیں کرتا ؛ نیز وہ اپنی بھی اصلاح کرتا ہے اور اپنے بھائیوں کی نصح و خیر خواہی میں مصروف رہتا ہے ، اور اس کی وجہ سے کسی قسم کا دعویٰ نہیں کرتا اور نہ کسی عزت و تعظیم کا طالب ہوتا ہے ؛ نیزوہ لوگوں کی بہبودی چاہتا ہے اور ان کو صنعت وغیرہ ذرائع معاش سے روزی کمانے کی ترغیب دیتا ہے ۔ (۳)جاننا چاہئے کہ خالص عبودیت کے سامنے تمام مقامات و مدارج اور مراتب و منازل ہیچ ہیں ، پس تقرب الی اللہ کے واسطے راہِ عبودیت سے زیادہ آسان اور کوئی راستہ نہیں ہے ، کیونکہ راہِ عبودیت محض انکسار ، خشوع و خضوع ، فروتنی و تواضع ، اور کم بینی و نفس کشی کا راستہ ہے ۔