انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہارون الرشید کی وفات رومیوں کی سرکوبی سے فارغ ہوکر اور نقفور کومغلوب وذلیل کرکے اور اس سے جزیہ کی رقم وصول کرنے کے بعد خلیفہ ہارون الرشید رقہ میں واپس آیا؛ یہاں آکر اس کورافع بن لیث کی چیرہ دستی اور بعض امرائے خراسان کی سرکشی کا حال معلوم ہوا اُس نے خود خراسان کا قصد کیا اور لشکر فراہم کرکے ماہِ شعبان سنہ۱۹۲ھ میں رقہ سے بغداد پھرخراسان سے بغداد کی جانب روانہ ہوا، ہارون نے روانگی کے وقت رقہ میں مؤتمن کونائب السلطنت بناکر خزیمہ بن خازم کواس کے پاس چھوڑا، بغداد میں اپنے بیٹے امین کواپنا قائم مقام بناکر مامون کوبھی بغداد میں امین کے پاس رہنے کا حکم دیا، مامون کے کاتب فضل بن سہل نے مامون سے کہا کہ آپ کا دارالخلافہ بغداد میں امین کے پاس رہنا مناسب نہیں ہے آپ خلیفہ کے ہرماہ چلنے کی کوشش کریں، مامون نے خلیفہ ہارون الرشید سے ہم سفروہم رکاب رہنے کی التجا کی اور خلیفہ نے اس خواہش کومنظور کرلیا، ہارون الرشید بغداد سے روانہ ہونے کوتھا کہ رقہ میں فضل بن یحییٰ برمکی محرم الحرام سنہ۱۹۳ھ کوبحالتِ قید فوت ہوا، بغداد سے روانہ ہوکر ماہِ صفر سنہ۱۹۳ھ میں خلیفہ جرجان میں پہونچا، جرجان میں پہنچ کرخلیفہ کی بیماری نے خطرناک صورت اختیار کی، ہارون جس زمانہ میں بلادِ روم کے اندر مصروفِ قلعہ شکنی تھا، اُسی زمانہ میں بیمار ہوگیا تھا، رقہ میں بیمار ہی پہونچا تھا، وہاں سے بغداد آیا تب بھی علیل تھا اور اسی حالتِ علالت میں خراسان کی طرف فوج لے کرروانہ ہوا تھا، خلیفہ نے جرجان میں تمام سردارانِ لشکر کے روبرو یہ اعلان کیا کہ میرے ساتھ اس وقت جس قدر فوج اور سامان ہے یہ سب ملکِ خراسان اور مامون سے متعلق رہے گا، اس تمام لشکر اور تمام سامان کا مالک مامون ہے اور یہ تمام سردار سپہ سالار بھی مامون ہی کے تابعِ فرمان رہیں گے، اس طرح مامون کا اطمینان کرکے جرجان سے مامون کومرو کی طرف بھیج دیا اور اس کے ساتھ عبداللہ بن مالک، یحییٰ بن معاذ، اسد بن خزیمہ، عباس بن جعفر بن محمد بن اشعث اور نعیم بن حازم وغیرہ سرداروں کوبھیجا۔ مامون کومرو کی جانب روانہ کرنے کے بعد خود جرجان سے روانہ ہوکر طوس چلا گیا، اس وقت اس کے ساتھ فضل بن ربیع، اسماعیل بن صبیح، مسرور حاجب، حسین، جبرئیل بن بختیشوع وغیرہ موجود تھے، طوس پہنچ کرعلالت نے یہاں تک ترقی کی کہ ہارون الرشید صاحب فراش ہوگیا، ہرثمہ بن اعین اور رافع بن لیث کے مقابلہ کا حال اوپرپڑھ چکے ہو، ہرثمہ نے ابھی تک رافع کومغلوب نہیں کیا تھا؛ لیکن بخارا فتح ہوکر رافع کا بھائی بشیر بن لیث گرفتار ہوچکا تھا، ہرثمہ نے بشیر کوخلیفہ کی خدمت میں روانہ کیا، جب ہارون الرشید طوس میں بسترعلالت پرپڑا ہوا تھا، اُس وقت بشیر اس کے پاس ہونچ کرحاضر کیا گیا، ہارون نے اُس کے قتل کرنے کا حکم دیا اور اُس کوبڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا، بشیر کے قتل کرنے کا حکم دے کرہارون بے ہوش ہوگیا، جب اس کوہوش آیا توجس مکان میں ٹھیرا ہوا تھا؛ اُسی مکان کے ایک گوشہ میں قبرکھودنے کا حکم دیا، جب قبر کھد کرتیار ہوگئی توچند حافظوں نے قبر میں اُترکر ختم قرآن کیا، ہارون نے اپنی چار پائی قبر کے کنارے بچھوالی اور چار پائی پرپڑے پڑے قبرکودیکھتا رہا؛ اسی حالت میں ۳/جمادی الثانی سنہ۱۹۳ھ مطابق ۲۴/مارچ سنہ۸۰۸ء بوقتِ شب انتقال کیا اُس کے بیٹے صالح نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ ۲۳/سال ڈھائی مہینے ہارون الرشید نے خلافت کی، طوس میں اس کی قبرموجود ہے، ہارون الرشید کا نکاح زبیدہ بنتِ جعفر بن منصور سے ہوا تھا، زبیدہ کی کنیت اُم جعفر تھی، محمد امین اسی کے بطن سے پیدا ہوا تھا، علی، عبداللہ، مامون، قاسم، موتمن، محمدمعتصم، صالح، محمدابوموسیٰ، محمدابویعقوب، ابوالعباس، ابوسلیمان، ابوعلی، ابواحمد یہ سب بیٹے اُمہات اولاد سے پیدا ہوئے تھے، ہارون الرشید کے ان لڑکوں میں، امین، مامون، مؤتمن، معتصم، چارزیادہ مشہور ہیں، معتصم پڑھا لکھا نہ تھا؛ اسی لیے ولی عہدی کے قابل اُس کوہارون نے نہیں سمجھا؛ مگروہ خلیفہ ہوا اور اسی کی اولاد سے بہت سے عباسی خلیفہ ہوئے اور اسی سے ہارون الرشید کی نسل چلی، ہارون الرشید نے مرتے وقت جس طرح بہت سے بیٹے چھوڑے اسی طرح بیٹیاں بھی بہت سی تھیں، جوسب کنیزوں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں۔ ہارون الرشید کوخاندانِ عباسیہ میں آفتاب خاندان سمجھنا چاہیے، اس کے زمانے میں خلافتِ عباسیہ نہایت مضبوط ہوکر اپنی معراجِ کمال کوپہنچ گئی تھی، ہارون الرشید کے عہدِ خلافت میں آلِ ابی طالب اور وسرے سازشی گروہوں کی ہمتیں پست ہوچکی تھیں، اس کوعلم وفضل کا بے حدشوق اور پابندی مذہب کا بہت خیال تھا، زندیقوں کے فتنہ کا اس کے عہد میں بکلی استیصال ہوچکا تھا، روم ویونان کی عظیم الشان عیسائی سلطنت اس کی خراج گذار تھیں، ہارون الرشید نے مرتے وقت خزانہ میں نوّے کروڑ دینار چھوڑے تھے، اندلس ومراقش کے علاوہ وہ تمام عالمِ اسلام کا فرمانروا تھا، منصور ہی کے زمانے سے تصنیف وتالیف کا کام شروع ہوچکا تھا، ہارون الرشید کے زمانے میں یہودی اور عیسائی علماء کی بھی بڑی قدردانی دربارِ بغداد میں ہوتی تھی، عیسائیوں کوہارون نے فوجی سرداریاں بھی عطا کیں اور اپنی مصاحبت میں بھی جگہ دی اس کے زمانے میں ہندوستان کے علماء بھی گورنرسندھ کی معرفت اور براہِ راست خود بھی بغداد میں پہونچے اور وہاں اُن کی قدرومنزلت بڑھائی گئی، عبرانی زبان کی کتابوں کے ترجمے ہوئے، مختلف علوم وفنون کی کی تدوین کا سلسلہ جاری ہوا، بغداد میں راحت وآسائش اور دولت واطمینان لوگوں کوخوب حاصل تھا، اس لیے شاعری اور موسیقی کے چرچے بھی بغداد میں پائے جاتے تھے، قصہ گویوں نے ہارون کے متعلق بعض فرضی کہانیاں تصنیف کیں اور وہ کہانیاں دنیا میں مشہور ہوگئیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس خلیفہ کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پھیل گئیں، ہارون الرشید بہادر اور سپاہی منش انسان تھا، وہ بڑی خوش دلی اور مسرّت کے ساتھ گھوڑے کی زین پرمہینے اور برس صرف کردیتا تھا؛ لیکن جب صوفیوں کی مجلس میں بیٹھتا توایک تارک الدنیا صوفی درویش نظر آتا تھا، جب فقہاء کی مجلس میں ہوتا تھا تووہ اعلیٰ درجہ کا فقیہ اور جب محدثین کی خدمت میں ہوتا تھا تواعلیٰ درجہ کا محدث ثابت ہوتا تھا، صرف زندیقوں یعنی لامذہبوں کا وہ ضرور دشمن تھا، باقی غیرمذہب والوں کے ساتھ اُ س کا برتاؤمدارات ومروّت کا تھا، حج جہاد اور خیرات تین چیزوں کا اُس کوبہت شوق تھا، وہ اعلیٰ درجہ کا رقیق القلب بھی تھا، جب کوئی شخص اس کونصیحت کرتا اور دوزخ سے ڈراتا تووہ زاروقطار رونے لگتا تھا۔ ایک روز ابن سماک ہارون کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ہارون کوپیاس لگی، اُس نے پانی مانگا، پانی آیا اور ہارون نے پینا چاہا توابنِ سماک نے کہا کہ امیرالمؤمنین ذراٹھہر جائیے، ہارون الرشید نے کہا: فرمائیے! ابن سماک نے کہا کہ اگرشدت پیاس میں پانی آپ کونہ ملے توایک پیالہ پانی آپ کتنے تک خرید لیں گے؟ ہارون الرشید نے کہا: نصف سلطنت دے کرمول لے لوں، ابنِ سماک نے کہا: کہ اب آپ پی لیجئے، جب ہارون الرشید پانی پی چکا توابنِ سماک نے کہا کہ امیرالمؤمنین اگر یہ پانی آپ کے پیٹ میں رہ جائے اور نہ نکلے تواس کے پیٹ سے نکلوانے میں آپ کہاں تک خرچ کرسکتے ہیں، ہارون الرشید نے کہا کہ ضرورت پڑے تومیں نصف سلطنت دے ڈالوں، ابن سماک نے کہا کہ بس آپ سمجھ لیجئے کہ آپ کا تمام ملک ایک پیالہ پانی اورپیشاب کی قیمت رکھتاہے، آپ کواس پرزیادہ غرور نہ ہونا چاہیے، ہارون الرشید یہ سن کررُوپڑا اور بہت دیر تک روتا رہا۔ ایک مرتبہ ہارون الرشید نے ایک بزرگ سے کہا کہ آپ مجھے نصیحت کیجئے؛ انھوں نے کہا کہ اگرآپ کا کوئی مصاحب ایسا ہو جوخوف دلاتا رہے اور اس کا نتیجہ بہتر ہو تووہ اُس مصاحب سے اچھا ہے جوآپ کوخوف سے آزاد کردے؛ مگرنتیجہ اُس کا برا ہو، ہارون الرشید نے کہا کہ ذراکھول کربیان فرمائیے؛ تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے؛ انھوں نے کہاکہ اگرکوئی شخص آپ سے یہ کہے کہ قیامت کے دن آپ سے رعیت کے متعلق سوال ہونے والا ہے آپ خدا سے ڈرتے رہیے تووہ اُس شخص سے بہتر ہے جویہ کہے کہ آپ اہلِ بیت نبوی سے ہیں اور بوجہ قرابت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں، یہ سن کرہارون الرشید ایسا رویا کہ پاس بیٹھنے والوں کواُس پررحم آنے لگا۔ قاضی فاضلی کہتے ہیں کہ دوبادشاہوں کے سوا کوئی ایسا نہیں ہوا جس نے طلب علم میں سفر کیا ہو، ایک توہارون الرشید کہ اس نے اپنے بیٹوں امین ومامون کوہمراہ لے کرمؤطا امام مالک کی سماعت کے لیے سفر کیا؛ چنانچہ جس نسخہ میں اُس نے پڑھا تھا وہ شاہانِ مصر کے پاس موجود تھا، دوسرا سلطان صلاح الدین ایوب جومؤطا امام مالک کے سننے کی غرض سے اسکندیہ گیا تھا۔ ہارون الرشید چوگان کھیلتا اور تیروکمان سے نشانہ بازی کرتا تھا، ہارون الرشید کی عمروفات کے وقت ۴۵/سال کے قریب تھی، اُس کے علاج میں حکیم جبرئیل بن بختیشوع سے غلطی ہوئی اس لیے مرض ترقی کرکے اس کی وفات کا باعث ہوا، یہ حکیم ہارون الرشید کے ہمراہیوں میں اُس کے بیٹے امین کا طرفدار تھا اور اس کا حاجب مسرور مامون کا ہواخواہ تھا، جب کہ ہارون الرشید سفر ہی میں تھا اور اس کی علالت ترقی کررہی تھی توبغداد سے اس کے بیٹے امین نے بکر بن المعتمر کی معرفت بعض خطوط ہارون الرشید کے ہمراہیوں کے نام لکھ کربھیجے تھے جن میں ہارون الرشید کوفوت شدہ تصور کرکے اپنی بیعت کے لیے لکھا تھا، ایک خط امین نے اپنے بھائی صالح کے نام لکھا تھا کہ لشکر واسباب اور خزانے لے کرفضل بن ربیع کے مشورے سے فوراً میرے پاس چلے آؤ؛ اسی مضمون کے خطوط اس نے ہارون الرشید کے دوسرے ہمراہیوں کوبھی لکھے تھے؛ اسی مضمون کا ایک خط فضل بن ربیع کے نام تھا، اُنہیں خطوط میں اس نے تمام سرداروں کواُن کے عہدوں پرقائم رکھنے کے لیے بھی وعدہ کیا تھا، بکر بن المعتمر کے آنے کی اطلاع ہارون کواتفاقاً ہوگئی، اس نے بکر کواپنے سامنے بلایا اور آنے کا سبب دریافت کیا اُس نے کوئی معقول جواب نہ دیا توہارون نے اس کوقید کردیا اس واقعہ کے بعد ہی ہارون الرشید کا انتقال ہوگیا، فضل بن ربیع نے بکر کوجیل خانے سے نکلوایا اس نے امین کے وہ خطوط دیئے ان خطوط کوپڑھ کر سرداروں نے آپس میں مشورہ کیا؛ چونکہ سب اپنے وطن بغداد کی طرف جانے کے آرزو مند تھے، فضل بن ربیع سب کولے کربغداد کی طرف روانہ ہوگیا اور ہارون نے وصیت کی تھی اور مامون سے جواُن کے عہدومیثاق تھے سب فراموش کریئے۔