انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** طریقِ کار (۱)حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں جن صحیفوں میں قرآن جمع کیا گیا تھا وہ سورتوں کے اعتبار سے مرتب نہ تھا؛ بلکہ ہرسورت علیحدہ صحیفہ میں لکھی گئی تھی، ان حضرات نے پورے قرآن کو سورتوں کے اعتبار سے مرتب کردیا اور ان سب کو ایک مصحف میں جمع کردیا۔ (۲)اب تک قرآن کریم کا صرف ایک ہی نسخہ تھا، جسے پوری امت کی اجتماعی تصدیق حاصل تھی، ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کے ایک سے زائد نقلیں تیار کیں، عام طور سے مشہور یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے صرف ۵/مصحف تیار کرائے تھے؛ لیکن ابن ابی داؤد نے نقل کیا ہے کہ کل ۷/نسخے تیار کئے گئے تھے، جن میں سے ایک مکہ مکرمہ میں، ایک یمن میں، ایک شام میں، ایک بحرین میں، ایک بصرہ میں، ایک کوفہ میں بھیج دیا گیا اور ایک مدینہ منورہ میں محفوظ رکھ لیا گیا۔ (فتح الباری:۹/۲۵۔ علوم القرآن:۱۹) (۳)قرآن کریم کو اس انداز سے لکھا گیا کہ اس کے رسم الخط میں تمام متواتر قرأتیں سماجائیں، قرآن کریم کے اندر کچھ کلمات تو وہ ہیں کہ اگر نقطے اور حرکات نہ لگائی جائیں تو تمام متواتر قرأتیں اس میں سماجائے، مثلاً: "اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا" (الحجرات:۶) میں ایک قرأۃ "فَتَبَیَّنُوْٓا" ہے اور دوسری قرأت "فَتَسْبَتُوْٓا" ہے، نقطوں اور حرکات سے خالی کرنے کی صورت میں دونوں قرأتیں اس میں سماگئیں؛ لیکن قرآن کریم کے اندر ایسے کلمات بھی ہیں کہ نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کے باوجود ایک سے زائد متواتر قرأتیں اس میں سمانہیں سکتی، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد "وَوَصّٰی بِھَآاِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ" (سورۃ البقرۃ:۱۳۲) میں "وَصّٰیَ" ایک قرأت ہے اور "اَوْصَی"دوسری قرأت ہے، یہ دونوں کسی بھی صورت میں ایک کلمہ میں سما نہیں سکتے اس لیے اس جماعت نے یہ کیا کہ ایک قرأت کو ایک مصحف میں اور دوسری قرأت کو دوسرے مصحف میں نقل کردیا؛ تاکہ تمام متواتر قرأتیں ان مصاحف میں سماجائیں۔ (مناہل العرفان:۱۸۵،۱۸۶) (۴)اس کام کی انجام دہی کے لیے ان حضرات نے بنیادی طور پر اسی صحیفہ کو اپنے پیشِ نظر رکھا جو عہد صدیقی میں تیار کیا گیا تھا، اس کے علاوہ مزید احتیاط کے پیشِ نظر انھوں نے وہی طریقِ کار اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ وہ تحریریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی اور جن پر آپ کی تصدیق ثبت تھی جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بکھری ہوی تھی ان سب کو دوبارہ طلب کیا گیا اور ان صحیفوں کا ان تحریروں کے ساتھ مقابلہ کرکے نئے مصاحف تیار کئے گئے، اس مرتبہ سورۂ احزاب کی آیت "مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo" (سورۂ احزاب:۲۳) تحریری شکل میں سوائے حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہٗ کے کسی اور صحابی رضی اللہ عنہٗ کے پاس نہیں ملی اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آیت صرف حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہٗ ہی کو معلوم تھی ان کے علاوہ کسی اور کو اس کے آیت ہونے کا علم نہ تھا یاکسی کو یاد نہ تھی یاتحریری شکل میں کسی کے پاس موجود نہ تھی؛ بلکہ صحیح بخاری (صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۷۴۶۔ رقم:۴۹۸۷) کی روایت میں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مصحف لکھتے وقت سورۂ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی جس کو میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے ہوئے سنا تھا؛ پھرہم نے اس کی تلاش شروع کی تو وہ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی، اس روایت سے معلوم ہوا کہ وہ آیت حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بھی یاد تھی اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اور وہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں لکھے گئے صحیفوں میں بھی موجود تھیں، اس لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سورۂ احزاب کی اس آیت کے سوا باقی تمام آیتیں جو حضور کے سامنے لکھی گئی تھی متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس ملی؛ لیکن سورۂ احزاب کی یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے سوا کسی کے پاس نہیں ملی۔ (علوم القرآن:۱۹۲) (۵)متعدد نسخوں کی تیاری کے بعد حضرت عثمانؓ نے فرمان جاری کردیا کہ ان کے علاوہ جس کے پاس قرآن کریم کے لکھے ہوئے نسخے موجود ہوں وہ سب نذر آتش کردیے جائیں، حضرت عثمانؓ نے یہ فرمان اس لیے جاری فرمایا؛ تاکہ قرآن کریم کے تمام نسخے رسم الخط اور متواتر قرأتوں کی شمولیت اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے ایک جیسے ہوجائیں، اس فرمان کے بعد صحابہ کرامؓ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات نے اپنے انفرادی نسخے نذرآتش کردیئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تمام لوگوں نے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے اس عمل کو بنظرِاستحسان دیکھا اور اس عمل میں ان کی تائید کی صرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ کو اس عمل سے کچھ ناگواری ہوئی؛ لیکن بعد میں وہ ناگوارئی بھی ختم ہوگئی۔ (فتح الباری:۹/۲۳) (تمت)