انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یحیٰ بن آدم خراج اسلامی حکومت کی آمدنی کا ایک شعبہ ہے اس کا قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں ہوچکا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس میں کوئی خاص تغیر نہیں ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے البتہ حکومت کے دوسرے شعبوں کی طرح اس کوایک حد تک منظم کیا اور اس کے انتظام میں بہت سے تغیرات کئے، اس کے بعد سے برابر اس شعبہ میں اصلاح وترقی ہوتی رہی؛ لیکن ڈیڑھ صدی تک اس کا کوئی مکمل تحریری دستور مرتب نہیں ہوا سنہ۱۷۰ھ میں جب ہارون رشید خلیفہ ہوا تواس نے اس کام کی طرف توجہ کی اور قاضی ابویوسف رحمہ اللہ سے اس موضوع پرایک خاص کتاب لکھنے کی درخواست کی؛ انہوں نے اس مبارک کام کواپنے ذمہ لیا اور کتاب الخراج کے نام سے ایک کتاب لکھ کرہارون کے سامنے پیش کی، کتاب کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف خراج یعنی اسلامی ٹیکس سے متعلق ہوگی؛ لیکن ایسا نہیں ہے؛ بلکہ یہ کتاب اسلامی حکومت کی مالی آمدنی اور خراج کا ایک مکمل دستور ہے۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ ہی کے زمانہ یااس کے قریب قریب اس موضوع پرمتعدد کتابیں لکھی گئی، جن میں یحییٰ بن آدم کی کتاب الخراج اور ابوعبیدہ کی کتاب الاموال زیادہ مشہور ہیں۔ اوّل الذکر یعنی امام ابویوسف رحمہ اللہ اور ان کی کتاب کا ذکر کتاب کے شروع میں آچکا ہے اور اس کتاب کا خاتمہ ثانی الذکر کے سوانح حیات اور ان کی کتاب کے تعارف پرکیا جاتا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ ثالث الذکر کا تذکرہ کتاب کے دوسرے حصہ میں آئے گا۔ یحییٰ بن آدم یحییٰ نام، ابوزکریا کنیت، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: یحییٰ بن آدم (امام نووی نے آدم اور سلیمان کے درمیان علی کے نام کا ایک اضافہ کیا ہے، جو عام تذکروں کے بیان کے خلاف ہے(تہذیب التہذیب:۱۱/۱۷۵))بن سلیمان الاموی (اموی نسبت دلائی ہے، نسبی نہیں یعنی ان کے والد آدم خالد بن خالد اموی کے غلام تھے، اس وقت یہ عام دستور تھا کہ غلام اپنے آقا کی نسبت کے ساتھ منسوب ہوتے تھے، اس طرح یحییٰ بھی غلامانِ اسلام کی فہرست میں داخل ہیں؛ لیکن خود خالد اور اس کے باپ اور دادا کے متعلق اہلِ تذکرہ خاموش ہیں، خالد کا جدعلی عقبہ بن معیط جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں مشہور تھا، بدر کے روز گرفتار ہوا اور قتل کیا گیا؛ البتہ اس کے لڑکے ولید نے فتح مکہ کے روز اسلام قبول کیا، خالد کا مختصر تذکرہ ابن سعد نے کیا ہے، جلد:۶، صفحہ نمبر:۲۳۳) یحییٰ کے دادا سلیمان کا کوئی تذکرہ رجال کی کتابوں میں نہیں ملتا، ان کے والد آدم البتہ حدیث کے ثقہ راویوں میں ہیں، ابن سعد اور تہذیب میں ان کا تذکرہ موجود ہے، صحیح مسلم میں وکیع کی سند سے ان کی ایک روایت بھی موجود ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۱۹۶) سنہ ولادت اہلِ تذکرہ نے یحییٰ کے سنِ ولادت کی کوئی تصریح نہیں کی ہے؛ لیکن بعض قوی قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ۱۴۰ھ یااس کے کچھ قبل یابعد ان کی ولادت ہوئی وہ قرائین یہ ہیں: (۱)تمام اہلِ تذکرہ متفق ہیں کہ ان کی وفات سنہ۲۰۳ھ میں ہوئی۔ (۲)ان کے قدیم شیوخ میں مسعر بن کدام متوفی سنہ۱۵۵ھ یا سنہ۱۵۳ھ اور قطر بن خلیفہ متوفی سنہ۱۵۵ھ ہیں، اس حساب سے ان کے اور یحییٰ کے سنہ وفات میں تقریباً ۵۰/برس کا فرق ہے۔ (۳)یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت تک بالکل چھوٹے بچوں کوسماع حدیث (حدیث سنانے) کا دستور نہیں شروع ہوا تھا؛ بلکہ جب وہ سن شعور کوپہنچ جاتے تھے، تب شیوخ انہیں اپنے حلقہ درس میں لیتے تھے، اس لیے ظاہر ہے کہ مسعر بن کدام (سنہ۱۵۵ھ یاسنہ۱۵۳ھ) وعیرہ سے سماع کے وقت کم از کم ان کی عمر ۱۵/برس کی رہی ہوگی، اس اعتبار سے اگرمسعر بن کدام کا سنہ وفات ۱۵۳/ قرار دیا جائے تووفات کے وقت یحییٰ کی عمر ۶۵/سال اور اگرسنہ۱۵۳ھ قرار دیا جائے تو۶۳/برس کی تھی، اس لیے ظاہر ہے کہ ان کا سنہ ولادت سنہ ۱۳۸ھ یا سنہ۱۴۰ھ قرار دینا پڑے گا، واللہ اعلم بالصواب۔ تعلیم وتربیت تذکروں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کی تعلیم وتربیت کہاں اور کس کی نگرانی میں ہوئی اور انہوں نے کیا کیا علوم حاصل کیئے؛ لیکن ان کے شیوخ کی فہرست اور ان کی کتاب کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے خالص دینی علوم کی طرف اپنی توجہ مبذول رکھی تھی اور اس کے حصول کے لیے تقریباً تمام علمی مراکز مثلاً مکہ، مدینہ، کوفہ، حمص وغیرہ میں پہنچے اور خصوصیت سے قرآن وحدیث کسی حد تک فقہ میں بھی دسترس بہم پہنچائی، ان کے شیوخ کی فہرست میں حمزہ بن حبیب الزیات بھی ہیں، جوعلم قرأت کے امام ہیں، ان کے تلمذ کی وجہ سے قیاس ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے علم قرأت میں بھی کچھ دستگاہ بہم پہنچائی ہو۔ شیوخ کی فہرست اُن کے شیوخ کے جونام مل سکے ہیں، ان کی تعداد ۹۰/ہے جن میں سے ۷۳/سے انہوں نے کتاب الحراج میں اور باقی ۱۷/سے دوسری کتابوں میں روایت کی ہے ان کے نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: ابراہیم بن حمید بن عبدالرحمن الرؤاسی، ابراہیم بن حمید الزبرقانی التیمی، ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی، اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی، اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم بن علیہ، اسماعیل بن عیاش ابن سلم العنصی الحمصی، ابوایاس (عبدالملک بن جویہ)، ایوب بن جابر بن سیار الحنفی السحیمی الیمامی، ابوبکر ابن عیاش بن سالم الاسدی، ابوبکر بن النہشلی الکوفی، جریر بن عبالدحمید الضبی، جعفر بن زیاد الاحمر، حاتم بن اسماعیل المدنی الحارثی، حیان بن علی الغزی الکوفی، حسن بن ثابت الثعلبی الاحول، الحسن ابن صالح بن صالح بن حی، ابوعبداللہ الثوری الکوفی، الحسن بن عیاش بن سالم الاسدی الکوفی، حسین بن زید بن علی بن الحسین، حفص بن غیاث بن طلق القاضی، حماد بن زید بن درہم، حماد بن سلمہ بن دینار، ابوسلمہ، حمید بن عبدالرحمنٰ بن حمید الرواسی، زہیر بن معاویۃ الجعفی الکوفی، زیاد بن عبداللہ بن الطفیل ابلکائی، سعید بن سالم بن ابی الہیفاء، سعد بن عبدالجبار الزبیدی الحمصی، سفیان بن سعید بن مسروق الثوری، الامام سفیان بن عیینہ، ابن ابی عمران الہلالی، سلابن سلیم ابوالاحوص الحنفی الکوفی، ستان بن ہارون البرجمی، شریک بن عبداللہ ابن ابی شریک القاضی النخعی، الصلت بن عبدالرحمن الزبیدی، عباد بن العوام بن عمر، عثربن القاسم الزبیدی، ابوزبید، عبداللہ بن ادریس بن یزید الادوی، عبداللہ بن المبارک، عبدر بہ بن نافع الکنانی ابوشہاب الحتاط الاصغر، عبدالرحمن بن حمید بن عبدالرحمٰن الرواسی، عبدالرحمن بن ابی الزناد، عبدالرحمن القاری، عبدالرحیم بن سلیمان المروزی الاشل، عبدالسلام بن حرب بن سلم الکوفی، عبدالملک بن جویتہ ابوایاس، عبدۃ بن سلیمان الکالابی، عبداللہ بن عبیدالرحمن الاشجعی، عتاب بن بشیر الجزری، عثمان بن مقسم البری، علی بن ہاشم بن البرید، عمار بن رزیق الضبی ابوالاحوص الکوفی، عمربن ہارون الخراسانی البلغی، عمربن ثابت ابن ہرمز بن ابی المقدام، فضیل بن عیاض بن مسعود بن بشرالتمیمی، قران بن تمام الاسدی ابوالبی، قیس بن الربیع الاسدی، مبارک بن فضالہ، محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی صاحب ابی حنیفہ، محمد بن خازم التمیمی، ابومعاویۃ الضریر، محمد بن طلحہ بن طلحہ بن مصرالیامی، محمد بن فضیل بن غزوان الضبی، مسعود بن سعد الجعفی الکوفی، مفضل بن صدقہ الکوفی، ابوحماد الحنفی، مفضل بن مہلہل السعدی، ابوعبدالرحمن، مندل ابن علی العنزی الکوفی، ہیشم بن بشر بن القاسم السلمی ابومعاویہ، ابن واقد المدنی، ورقاء بن عمر بن کلیب الیشکری، ابن مبارک کے شیخ ہیں، وضاح بن عبداللہ الشیکری ابوعوانہ، وکیع بن الجراح ابن ملیح الرواسی، وہب بن خالد بن عجلان الباہلی، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، یزید بن ابراہیم التشری ابوسعید، یزید بن عبدالعزیز بن سیاہ الاسدی الحمانی، یونس بن یزید بن ابی النجاد الاہلی۔ یہ ان شیوخ کی فہرست تھی، جن سے انہوں نے کتاب الخراج میں روایت کی ہے، کتاب الخراج کے علاوہ جن شیوخ سے روایت کی ہے، ان کے نام یہ ہیں: ابراہیم بن سعد بن ابراہیم الزہری، بشر بن السری ابوعمروالافوہ، جریر بن حازم بن عبداللہ الازدی، حسین بن علی بن الولیدالجعفی، حمزہ بن حبیب الزیات، سعید بن سالم القداح ابوعثمان المکی، عبداللہ ابن عثمان البصری، عبدالعزیز بن سیاہ الاسدی الحمانی، عیسیٰ بن طہمان، فضیل بن مرزوق الاغر، قطر بن خلیفہ المخزومی الحناظ، قطبہ بن عبدالعزیز بن سیارہ، مالک بن مغول بن عاصم البجلی، محمد بن اسماعیل بن رجاء الزبیدی الکوفی، مسعر بن الکدام بن ظہیرالعامری، موسیٰ بن قیس الحضرمی الفراء عصفورالجنۃ، یونس بن ابی اسحاق السبیعی۔ ان شیوخ میں بعض ایسے لوگوں کے نام بھی ہیں جو ان کے اصحاب واحباب میں شمار ہوتے ہیں، مثلاً حسن بن صالح جن سے انہوں نے تقریباً پچاس سے زائد جگہ روایت کی ہے؛ لیکن ابن حزم نے ان کویحییٰ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ محدثین کے دستور کے مطابق انہوں نے اپنے ہمعصروں (محدثین کواگراپنے اصاغر سے بھی روایتیں مل جاتی تھیں تووہ روایت کرلیتے تھے) اور چھوٹوں سے بھی روایتیں کی ہیں اور بعض جگہ توباپ اور بیٹے دونوں سے روایت کرتے ہیں، مثلاً عبدالرحمن بن الرواسی سے بھی روایت کی ہے اور ان کے لڑکے حمید سے بھی؛ اسی طرح عبدالعزیز بن سیارہ اور ان کے دونوں لڑکے یزید اور قطبہ سے روایتیں کی ہیں۔ تلامذہ یحییٰ کی روایت اور ان تلامذہ کی کثرت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا حلقہ درس وسیع رہا ہوگا؛ لیکن اہل تذکرہ میں سے کسی نے بھی ان کے درس وتدریس کے متعلق کوئی تصریح نہیں کی ہے، ان کے تلامذہ کی فہرست میں بعض بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً اسحا بن راہویہ، یحییٰ بن معین بھی شامل ہیں، تلامذہ کی فہرست بہت لمبی ہے، ان میں چند نام درج کیے جاتے ہیں، جن سے صحاحِ ستہ میں روایت موجود ہے۔ احمد بن ابی رجا عبداللہ الہردی، احمد بن سلیمان الرہادی، احمد بن عمرالواقدی، احمد بن محمد بن حنبل، اسحاق بن ابراہیم البخاری، اسحاق بن راہویہ مشہور امام حدیث، بشربن خالد العسکری، حسن بن علی بن عفان العامری، الحسن بن علی الخلال حافظ حدیث، الحسین بن علی بن الاسود العجلی، حقص ابن عمر المہرقانی یہ ابوحاتم اور ابوزرعہ کے شیخ ہیں، سفیان بن وکیع بن الجراح، عباس بن حسین القنطری، ابوبکر عبداللہ بن شیبہ، عبداللہ بن محمدالمسندی، عبدالاعلیٰ بن واصل الاسدی، عبدالرحمن ابن صالح الازوی، عبد بن حمید، عبدہ بن عبداللہ الخزاعی الصفار، عبید بن بعیش المحاملی، عثمان بن ابی شیبہ، عصمۃ ابن الفضل النیشاپوری، علی بن عبداللہ بن المدینی، علی بن محمدالطنافسی، محمد بن اسماعیل، ابوبکر بن علیہ، محمد بن عبداللہ بن المبارک المخرمی، محمدبن رافع النیشاپوری، ابوکریب محمد بن العلا الہمدانی، محمد بن عمر بن الولید الکندی، محمد بن الولید بن ابی ولید الفحام، محمود بن غیلان المروزی، موسیٰ بن خرام مشہور فقیہ تھے، موسیٰ بن عبدالرحمن المسروتی، ہارون بن عبداللہ الحمال حافظ حدیث تھے، واصل بن عبدالاعلی ابن ہلال الاسدی، یحییٰ بن معین رحمہم اللہ جرح وتعدیل کے امام تھے۔ دربار سے بے تعلقی یحییٰ نے تقریباً ۶/خلفاء منصور، ہادی، مہدی، ہارون، امین، مامون کا زمانہ پایا؛ لیکن ان میں سے کسی خلیفہ کے دربار سے انہوں نے اپنا تعلق نہیں قائم کیا اور نہ حکومت کا کوئی عہدہ قبول کیا۔ علم وفضل علم وفضل کے لحاظ سے یحییٰ ممتاز حیثیت رکھتے تھے، امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کوطبقہ سابعہ میں شمار کیا ہے، جس میں امام شافعی، عبدالرحمن بن مہدی، ابوداؤد طیالسی وغیرہ ہیں۔ امام ذہبی نے علی بن المدینی سے جوائمہ حدیث میں سے ہیں، روایت کی ہے کہ حدیث کی سند کا مدار زیادہ ترچھ آدمیوں پرہے، اہلِ مدینہ میں ابن شہاب زہری، اہل مکہ میں عمروبن دینار، اہل بصرہ میں قتادہ اور یحییٰ بن ابی کثیر، اہل کوفہ میں ابواسحاق اور اعمش؛ پھران چھ کا علم ان بارہ آدمیوں میں پھیلا، اہلِ مدینہ میں امام مالک اور ابن اسحاق اور اہلِ مکہ میں ابن جریج اور ابن عیینہ اور اہلِ بصرہ میں سعید بن ابی عروبہ وحماد بن سلمہ وابوعوانہ وشعبہ ومعمر اور اہلِ کوفہ میں سفیان ثوری اور اہلِ شام میں امام اوزاعی اور واسط میں ہیشم، پھران ائمہ کا علم تین آدمیوں یحییٰ القطان، یحییٰ بن زکریا، اور وکیع بن جراح میں سمٹ آیا اور پھران تینوں سے یہ امانت عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی اور یحییٰ بن آدم کی طرف منتقل ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۰) یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ، کثیر الحدیث اور بہت بڑے فقیہ تھے؛ حالانکہ ان کا سن بہت زیادہ نہیں تھا، علی بن مدینی فرمایا کرتے تھے کہ ان کے پاس علم تھا ابواسامہ فرماتے ہیں کہ میں جب یحییٰ بن آدم کودیکھتا ہوں توامام شعبی یاد آجاتے ہیں، یعنی وہ امام شعبی کی طرح جامع العلوم تھے، ابن سعد، یحییٰ بن معین، ابوحاتم، ابن حبان وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے، یحییٰ بن ابی شیبہ کے الفاظ یہ ہیں کہ: ثقہ، صدوق، ثبت، حجۃ، یحییٰ قابل اعتماد اور حجۃ تھے، ان کے علم وفضل کے متعلق ان ائمہ کی رائے سب سے بڑی سند ہے۔ مسلک ان کے زمانہ تک تخرب اور عامیانہ تقلید کا دور شروع نہیں ہوا تھا اور نہ اس وقت محدثین اور فقہاء اپنے لیے اس لقب کوپسند کرتے تھے؛ بلکہ علماء قرآن وحدیث وآثار کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق فتویٰ دیتے تھے؛ اگرکسی مسئلہ میں وہ خود رائے قائم نہیں کرپاتے تھے توائمہ میں سے جن کی رائے انہیں پسند ہوتی اس کواختیار کرلیتے تھے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں تشنگانِ علم بغیر کسی عصبیت اور تخرب وتعصب کے مختلف شیوخ سے سماع حدیث اور مختلف الخیال فقہا کی حدمت میں جاکر تحصیل فقہ کرتے تھے، اس لیے ان میں کورانہ تقلید اور تنگ نظری پیدا نہیں ہونے پاتی تھی، امام محمد حدیث میں امام مالک کے شاگرد تھے، اسد بن فرات اور امام شافعی نے امام محمد سے فقہ کی تحصیل کی تھی، خود امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے درمیان علمی مذاکرے ہوتے رہتے تھے (اس وقت تک دومسلک حنفی اور مالکی رواج پاچکے تھے، یحییٰ اپنی کتاب میں دونوں میں سے ہرایک کی کسی جگہ موافقت اور کسی جگہ مخالفت کرتے ہیں) امام احمد بن حنبل، امام ابویوسف کے شاگرد تھے، ایسی بہت مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ یحییٰ بن آدم نے بھی مختلف الخیال محدثین اور فقہاء سے تحصیلِ علم کی تھی، ایک طرف وہ امام محمد سے روایت کرتے ہیں، دوسری طرف سے حسن بن صالح کے جن کوامام محمد سے شدید اختلاف تھا، خاص تلامذہ میں تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کسی خاص امام کے مسلک کے پابند نہیں ہوسکے۔ (صفحہ:۱۶، صفحہ:۱۴۵ اور صفحہ:۱۴۷، میں اس کی تصریح موجود ہے) اور نہ انہووں نے اپنی کتاب کوکسی خاص مسلک تک محدود رکھا، ان کے مسلک کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ان کا تعلق محدثین کی جماعت سے تھا؛ چنانچہ کتاب میں جہاں جہاں عندنا یاعند اصحابنا یاجماعۃ عن اصحابنا وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ مسائل میں ان کا نقطہ نظر محدثانہ تھا۔ تصانیف امام نووی نے یحییٰ کی تصنیفات میں صرف کتاب الخراج کا تذکرہ کیا ہے، امام ذہبی نے لکھا ہے کہ ھوصاحب التصانیف وہ صاحب تصانیف ہیں؛ لیکن انہوں نے بھی کتاب الخراج کے علاوہ کسی دوسری کتاب کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۲۷) ابن ندیم نے کتاب الخراج کے علاوہ دواور کتابوں کا بھی تذکرہ کیا ہے (ڈاکٹر جیونیول اور ابوالاشبال دونوں مصمحین میں سے کسی کی نظر ابن ندیم پرنہیں تھی؛ اسی لیے انہوں نے تصنیفات میں صرف کتاب الخراج کا تذکرہ کیا ہے) کتاب الزوال اور کتاب الفرائض (ابن ندیم میں کتاب الفرائض کے بعد ڈیش ہے، اس کے بعد کبیر الگ، ڈیش کے ساتھ لکھا ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوکتابیں ہیں؛ لیکن میں نے اس کوطابعت کی غلطی سمجھ کرکبیر کوکتاب الفرائض کی صفت قرار دے دیا ہے) اس کے متلق لکھا ہے کہ یہ بہت بڑی کتاب ہے؛ مگران میں کتاب الخراج کے علاوہ کسی اور کتاب کے موجود ہونے کا کوئی علم نہیں ہے۔ کتاب الخراج بھی اب تک ناپید تھی؛ لیکن ایک فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر جانیبول کے ذریعہ چند سال ہوئے کہ سامنے آئی ہے۔ ڈاکٹر جانیبول کوکتاب الخراج کا ایک قدیم نسخہ ایم، شارل سیفر کے یہاں جوپیرس میں علوم مشرقیہ کے صدر ہیں ملا؛ انہوں نے بڑی دیدہ ریزی سے اس کی تصحیح کی اور اس پرفرنچ میں ایک مقدمہ لکھ کر سنہ۱۸۹۸ء میں مطبعہ بریل، لیڈن سے شائع کیا، یہ نسخہ پانچویں صدی کے آخ رکا لکھا ہوا ہے اور اس کی ضخامت ۹۵/صفحات ہے، کتاب سے صاحب نسخہ کے نام کا پتہ نہیں چلتا؛ لیکن کتاب کی پشت پرانہوں نے اپنے شیخ اوراپنے معاصرین کے سماع کی جویادداشت لکھی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب نسخہ نے ابوعبدالرحمن بن علی اللبری سے جوکتاب کے مرتب اور جن پراس کتاب کی تمام سندیں منتہی ہوتی ہیں، براہِ راست سماع کیا ہے، شیخ بسری کے سماع کی یادداشت یہ ہے: ابوالقاسم علی بن حمد بن البسری النبد ارورلدہ ابوعبداللہ الحسین ونوفل بن علی محمد بن علی الاسائی فی المحرم سنۃ ست عشرۃ وادبعمائۃ۔ ترجمہ: شیخ بسری کے پوتے اور ان کے لڑکے ابوعبداللہ اور نوفل وغیرہ نے بھی سماع کیا ہے اور یہ سماع محرم سنہ۴۱۶ء میں ہو۔ (الاسائی، اصل میں اس طرح لکھا ہوا ہے، کسی مصحح نے اس کے متعلق کچھ کہا بھی نہیں ہے؛ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ اسنانی ہے)۔ دوسری یاددشات میں کچھ اپنے ہم عصرسامعین کے نام بھی لکھے ہیں، ان کے نام کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے جمادی الاولیٰ سنہ۴۸۴ھ میں سماع کیا ہے، غالباً یہ اختتام سماع کی تاریخ ہے؛ لیکن کہیں بھی اپنے سماع کی تاریخ نہیں لکھی ہے، کتاب کے ہرحصہ کے شروع میں: أخبرنا الشيخ أبو عبد الله الحسين بن علي بن أحمد بن البسري۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱/۲، شاملہ، موقع جامع الحديث) ترجمہ:شیخ بسری نے ہم سے بیان کیا۔ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا سماع شیخ بسری سے براہِ راست ہے اور چونکہ سنہ۴۸۴ھ سے پہلے انہوں نے اپنے یاکسی دوسرے کے سماع کی تاریخ نہیں لکھی ہے، اس لیے قیاس ہوتا ہے کہ سنہ۴۸۴ھ ہی ان کے سماع کی تاریخ ہوگی۔ بسری (بسری بغداد کے مشہور محدثین میں ہیں، سنہ۴۰۹ھ یا سنہ۴۱۰ھ میں ان کی ولادت ہوئی تھی اور سنہ۴۹۷ھ میں وفات پائی، سمعانی نے ان کا تذکرہ کیا ہے، صفحہ نمبر:۸۱) نے اس کتاب کا سماع اپنے شیخ ابوعبداللہ بن یحییٰ السکری سے سنہ۴۱۶ھ میں کیا تھا، سماع کے وقت ان کی عمر۷،۸/برس سے زائد نہیں تھی، ظاہر ہے کہ اس عمر کے روایات پرپورے طور پراعتماد نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن بسرتی کی مرویات کواس درجہ قبولیت حاصل ہوئی کہ ان کی کم عمری اعتماد واعتبار کے لیے مانع نہیں رہی۔ ڈاکٹر جانیبول نے کتاب کی تصحیح وتحشیہ میں کافی محنت کی تھی؛ لیکن پھربھی اس میں کچھ نہ کچھ خامیاں رہ گئی تھیں، اس لیے قاضی ابوالاشیال احمد شاکر مصری نے دوبارہ اس کی تصحیح کی جہاں جہاں ڈاکٹر صاحب کی تصحیح میں غلطی تھی، اس کی نشاندہی کی (مثلاً صفحہ نمبر:۶۳،۱۲۲،۱۲۳، میں اس کی تفصیل موجود ہے) اور دوسرے ماخذوں سے ہرمسئلہ کی مراجعت کرکے اس کی تخریج کی اور یحییٰ بن آدم کے سوانح حیات اور ان کے شیوخ تلامذہ کی فہرست کے ساتھ سنہ۱۳۴۷ھ مطابق سنہ۱۹۲۸ء میں دوبارہ مطبعہ سلفیہ قاہرہ سے شائع کیا، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ قاضی صاحب نے اس سلسلہ میں سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ کتاب کے رجال کی پوری تحقیق کی ہے اور ان کی تعدیل وجرح کے سلسلہ میں جوکچھ کہا گیا ہے، اس کی نقل کردیا ہے، علاوہ بریں جومسائل امام ابویوسف اور یحییٰ کی کتابوں میں مشترک ہیں حاشیہ میں ان کی بھی تصریح کردی ہے، یہ حاشیہ اپنی افادیت کے لحاظ سے کتاب کی ایک مختصرشرح ہے؛ لیکن انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ اس کتاب کا کیا درجہ ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں اور امام ابویوسف اور یحییٰ کی کتابوں میں جوایک ہی موضوع سے متعلق ہیں کیا فرق ہے، آئندہ سطور میں اسی کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے۔ پوری کتاب چار حصوں میں ہے، جن میں ۲۳/ابواب اور ۶۴۰/مسئلے ہیں، مؤلف نے صرف دوآخری حصوں تبویب کی تھی، باقی دوحصوں کی تبویب مصح نے کی ہے اور اوپر حاشیہ میں عنوانات کی سرخیال قائم کردی ہیں۔ یحییٰ کی روایات اور ان کے اقوال عام طور سے مشہور ہیں اور تمام متقدم اور متاخر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں ان کوجگہ دی ہے؛ لیکن بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں ان کی کتاب الخراج کے ساتھ زیادہ اعتنا نہیں کیا گیا اور اس کے نسخے زیادہ مروج تھے؛ چنانچہ امام مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ، امام نووی، حافظ ابن حجر، بلاذری وغیرہ نے متعدد جگہ ان کی رویات اور ان کے اقوال اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیئے ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی نے بھی کتاب الخراج کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ کہیں اس کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب کی خصوصیت اور امام ابویوسف اور اُن کی کتاب میں فرق (۱)اسلامی مالیات کے جن شعبوں کے متعلق قرآن پاک کی آیات میں اشارات موجود ہیں، یحییٰ بن آدم نے ہرعنوان کے تحت ان آیات کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد حدیث وآثار سے استدلال کیا ہے، مثلاً فئی، غنیمت، تجارت، زراعت، صدقات، مایکرہ فی الصدقہ جذا، ذوحصار وغیرہ کے سلسلہ میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے۔ (۲)طریقہ تصنیف محدثانہ ہے، یعنی ہرمسئلہ میں انہوں نے اپنے شیوخ یاتابعین کے اقوال یاپھرصحابہ کے آثار یااحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا ہے اور خود اپنی رائے پوری کتاب میں مشکل سے دوچار جگہ دی ہے۔ (۳)فقہ میں کسی خاص مسلک کے پابند نہیں تھے؛ لیکن پھربھی انہوں نے متعدد جگہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور اس کے بعد محدثین کی رائے کوپیش کرکے اس کوترجیح دی ہے؛ مگرجہاں بھی اختلاف کیا ہے وہاں امام صاحب کا نام نہیں لیا ہے؛ بلکہ بعض وغیرہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مثلاً اس مسئلہ میں کہ اگرکوئی پرتی زمین کوآباد کرنا چاہے تووہ کرسکتا ہے یانہیں؟ دوسرے ائمہ کی رائے ہے کہ اس کواختیار ہے وہ آباد کرلے اور وہ اس زمین کا مالک ہوگا؛ خود امام ابویوسف اور امام محمد کی رائے بھی یہی ہے؛ لیکن امام صاحب کے نزدیک اس میں امام کی اجازت کی ضرورت ہے، طرفین کے اقوال ذکر کرنے کے بعد یحییٰ نے دوسرے ائمہ کے اقوال کی تائید میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔ مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَیْتَۃً، فِي غَيْرِ حَقِّ مُسْلِمٍ، وَلَامَعَاھِد فَهِيَ لَهُ۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱/۲۵۲، شاملہ، موقع جامع الحديث۔ دیگرمطبوعہ:۸۶) ترجمہ: جوکسی ایسی پرتی زمین کوآباد کرے جوکسی مسلم یامجاہد کی نہ ہوتو وہ زمین اس کی ہے۔ اس کے بعد لکھا ہ کہ حدیث میں امام سے اجازت کا ذکر نہیں ہے، جس سے معلوم ہوا کہ امام صاحب کی رائے ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے، بعض جگہ وہ دوسرے ائمہ کی بھی مخالفت کرتے ہیں، مثلاً اس مسئلہ میں کہ خراج کی زمین پردوسرے محاصل عائد کئے جاسکتے ہیں یانہیں، ائمہ کی رائے ہے کہ دوسرے محاصل عشروغیرہ اس میں لیے جاسکتے ہیں، امام صاحب کی رائے ہے کہ خراجی زمین میں خراج کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لی جاسکتی، اس مسئلہ میں یحییٰ امام صاحب کے ساتھ ہیں اور فریقین کے استدلالات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وقد قال جماعة من أصحابنا: ليس على ماأخرجت أرض الخراج عشر، وإنما على الأرض الخراج، وليس في زرعها ولافي ثمارها شيء لمسلم كان، أولغيره۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۲/۵۶، شاملہ، موقع جامع الحديث۔ دیگرمطبوعہ:۱۶۷) ترجمہ:ہمارے صحاب میں سے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ خراجی زمین پرعشر نہیں ہے اس پرصرف حراج ہے اور اس زمین کی زراعت اور اس کے پھل میں کوئی محصول نہیں ہے وہ زمین مسلمان کی ہو یاغیر مسلم کی۔ دوسری جگہ اس مسلک کی تائید کرتے ہوئے فرمات ہیں کہ میرے بعض بصری اصحاب کی بھی یہی رائے ہے۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱۶۷) زکوٰۃ کے سلسلہ میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ اگرمختلف قسم کے غلے اتنی تھوڑی مقدار میں پیدا ہوں کہ نصاب زکوٰۃ تک نہ پہنچتے ہوں؛ لیکن اگران سب کویاان کی قیمت کوملادیا جائے تووہ نصاب تک پہنچ جاتے ہوں توایسا کرنا چاہیے یانہیں، امام صاحب توغلہ میں سرے سے نصاب کے قائل ہی نہیں ہیں، ان کے نزدیک غلہ کی جتنی مقدار بھی ہو اس میں عشر یانصف عشر دینا چاہیے، بقیہ ائمہ غلہ کا نصاب پانچ وسق مقرر کرتے ہیں اس لیے ان کے یہاں یہ سوال اہمیت رکھتا ہے، امام شافعی ایک غلہ کودوسرے غلہ سے یااس کی قیمت کوملا کرعشر ادا کرنے کوجائز نہیں سمجھتے، امام احمد کا خیال ہے کہ ایک دوسےر کوملاکرزکوٰۃ ادا کرنی چاہیے، امام مالک صرف جَو اور گیہوں کوایک دوسرے سے ملانے کے قائل ہیں، یحییٰ چونکہ مطلق ایک دوسےر کے ساتھ ملانے کے قائل نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ کے مسلک کوبھی پسند نہیں کیا؛ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ اصحاب امام مالک نے جَواور گیہوں کویکساں سمجھا ہے؛ لیکن یہ بھی ناجائز نہیں ہے؛ یہی مسلک امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا اور بعد میں یہ انہی کی طرف منسوب ہوگیا۔ (۴)کتاب میں بعض ایسی روایتیں بھی ہیں، جن میں مصنف رحمہ اللہ منفرد ہیں، مثلاً یہ روایت: مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِىَ لَهُ وَلَيْسَ لِعرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱/۲۳۸، شاملہ، موقع جامع الحديث۔ دیگرمطبوعہ:۵۸) ترجمہ:جوپرتی زمین کوآباد کرے، وہ اس کی ہے۔ الفاظ کے ساتھ کسی نے بھی یہ روایت نہیں کی ہے، ابن حجر نے فتح الباری جلد:۵/ صفحہ نمبر:۱۳/ میں یحییٰ کی اس روایت کونقل کیا ہے؛ لیکن انہوں نے بھی یحییٰ کے علاوہ کسی دوسرے سلسلہ سند کا ذکر نہیں کیا ہے؛ اسی طرح بعل والعشری والغدری والی حدیث میں بھی غالباً صاحب کتاب منفرد ہیں، ابن ماجہ نے اس روایت کواپنی کتاب میں نقل کیا ہے؛ لیکن ان کا سلسلہ سند بھی یحییٰ ہی پرختم ہوتا ہے۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱۲۳) امام ابویوسف رحمہ اللہ اوریحییٰ کی کتاب میں چند ظاہری اور معنوی فروق یہ ہیں: (۱)اوپر لکھا جاچکا ہے کہ یحییٰ کی کتاب الخراج کی طرف علماء نے بہت کم اعتنا کیا ہے، بخلاف اس کے ابویوسف کی کتاب الخراج کوتمام متقدمین ومتاخرین ائمہ کے نزدیک ایک خاص درجہ حاصل رہا ہے اور مشکل سے حدیث وفقہ کی کوئی کتاب کے ذکر سے خالی ہوگی۔ (۲)امام ابویوسف کی کتاب میں ۳۷/ابواب اور یحییٰ کی کتاب میں کل ۳۳/ابواب ہیں اس ظاہری فرق کے علاوہ معنوی حیثیت سے بھی امام ابویوسف کی کتاب بہت بلند ہے، اس میں ہرعنوان کے تحت جزئیات اور بہت سے مجتہدانہ نکات اور متنوع مسائل ملتے ہیں۔ (۳)امام ابویوسف کی کتاب میں بعض مباحث ضمناً آگئے ہیں؛ لیکن یحییٰ نے ان کی مستقل ابواب قائم کئے ہیں، مثلاً تحیر، شراب کی تجارت پرذمیوں سے ٹیکس لینے جذاذوحصاد یاسبزی میں زکوٰۃ وغیرہ کے مباحث کوامام ابویوسف نے ضمناً ذکر کیا ہے؛ لیکن یحییٰ نے ان کے لیے الگ الگ باب قائم کئے ہیں۔ (۴)امام ابویوسف کی کتاب میں گوجزئیات اور متنوع مسائل زیادہ ہیں؛ لیکن پوری کتاب تقریباً تمام ترحنفی مسلک کے مسائل تک محدود ہے، اس کے مقابلہ میں یحییٰ کا طریقہ تصنیف محدثانہ ہے اور وہ ہرعنوان کے تحت مختلف احادیث، آثار واقوال نقل کردیتے ہیں اور خود اس کا فیصلہ بہت کم کرتے ہیں، اس سے یہ فائدہ ہے کہ پڑھنے والے کوہرموضوع پرخود سوچ کرکسی امام کی رائے کوراجح یامرجوع قرار دینے کا موقع ملتا ہے، علمی حیثیت سے کتاب میں بعض تسامحات بھی ہیں، مثلاً:زکوٰۃ پربحث کی ہے؛ لیکن زکوٰۃ کے مصرف کے بارے میں کچھ نہیں لکاھ ہے، یادریا سے حاصل کی ہوئی اشیاء کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے۔ (۲)ان کے شیوخ اور سلسلۂ سند کے رواۃ میں بہت سے ضعیف اور بعض مجہول اشخاص بھی ہیں، مثلاً شیوخ میں محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی، ایوب بن جابر بن سیار، عبدالجبار بن زبیدی کوکاذب تک کہا گیا ہے، سنان بن ہارون، الصلت بن عبدالرحمن، عثمان بن مقسم، عمر بن ہارون، عمروبن ثابت بن ہرمز، قیس بن الربیع، مفصل بن صدقہ وغیرہ، عام رواۃ میں مغلس۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۲۵) جن کا تذکرہ رجال کی کسی کتاب میں نہیں ملتا، عبدالرحمن القاری کا تذکرہ بھی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۵۱) اسی طرح محمد بن مسادر، عبادہ بن نعمان، ابوعلی الصفار وغیرہ کا تذکرہ بھی متداول کتابوں میں موجود نہیں ہے؛ اسی طرح محمد بن مسادر، عبادہ بن نعمان، ابوعلی الصفّار وغیرہ کا تذکرہ بھی متداول کتابوں میں موجود نہیں ہے؛ اسی طرح ابراہیم بن محمد۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۷۳) عبدالرحمن بن معاویہ۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۷۳) اسماعیل بن ابی سعیر۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱۰۴) ابوحماد۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱۰۵) وغیرہ کوعلماء نے ضعیف اور اُن میں سے بعض کووضّاعِ حدیث تک لکھا ہے، پوری کتاب میں سیکڑوں لغات اور فقرے ایسے ہیں، جن کی مکمل تشریح کی ضرورت تھی، ان کے حل کئے بغیر عبارت کا مفہوم واضح نہیں ہوتا، ضرورت تھی کہ کتاب کے ساتھ ایسے الفاظ کی ایک فہرست بھی منسلک ہوتی، مثلاً اس اثر: لَيْسَ عَلَى عَرَبِىٍّ مِلْكٌ۔ (الخراج ليحيى بن آدم:۱/۴۰، شاملہ، موقع جامع الحديث) ترجمہ: یعنی عربی النسل پرکسی کی ملکیت نہیں ہے۔ کے نقل کرنے کے بعد یہ جملہ ہے: وَلَكِنَّا نُقَوِّمُهُمُ أَنَّمْلَۃِ خَمْسَیْنِ مِنَ الإِبِلِ کا مطلب بالکل واضح نہیں ہوتا، مصنف سے اس آیت قری ظاہرہ کی تشریح کے سلسلہ میں بھی فروگذاشت ہوگئی ہے؛ گوعام ائمہ تفسیر کی طرح انہوں نے بھی اس کی تشریح قری عربیہ کے لفظ سے کی ہے؛ مگرانہوں نے اس سے ایک خاص سرزمین مراد کی ہے، جوصحیح نہیں ہے، تفسیر ابن کثیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے کہ: هِيَ قُرَىٰ عَرَبيَّةٌ بَيْنَ الْمَدِينَةِ وَالشَّامِ ﴿ قُرًىٰ ظَاهِرَةً﴾ أَي: بَيْنة وَاضحة، يَعْرِفُهَا الْمُسَافِرُوْنَ۔ (تفسیرابن کثیر:۶/۵۰۹، شاملہ،المؤلف:أبوالفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي،المحقق:سامي بن محمد سلامة،الناشر:دارطيبة للنشروالتوزيع) ترجمہ: مدینہ اور شام کے درمیان جوآبادیاں ہیں وہی قری عربیۃ ہیں، اس کوظاہرہ اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کومسافرین عام طور پرجانتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی مخصوص خطہ کا نام نہیں ہے؛ بلکہ مدینہ وشام کے درمیان کی آبادیوں کوقری ظاہرہ کہتے ہیں؛ پھرمعجم البلدان اور کتب لغت تاریخ وغیرہ میں کوئی مقام اس نام کا نہیں ملتا، اس لیے ظاہر ہے کہ مصنف کواس میں سہو ہوگیا ہے۔