انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** محمد بن حنیفیہ کا مشورہ ولید کے پاس سے واپس آنے کے بعد حضرت حسینؓ بڑی کشمکش میں تھے، آپ کو اس مشکل سے مفر کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی ،ایک طرف آپ یزید کی بیعت دل سے سخت ناپسند کرتے تھے،کیونکہ اس کی ولیعہدی کی بیعت خلفائے راشدینؓ کے اسلامی طریقۂ انتخاب کے بالکل خلاف غیر شرعی اورقیصر وکسریٰ کے طرز کی پہلی شخصی ومورثی بادشاہت تھی،دوسری جمہورامت کے خلاف بھی نہیں چاہتے تھے؛ چنانچہ ولید سے فرمادیا تھا کہ جب تمام اہل مدینہ بیعت کرلیں گے تو مجھے بھی کوئی عذر نہ ہوگا، تیسرے اہل عراق خود آپ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے اورآپ کے پاس اس مضمون کے بہت سے خطوط آچکے تھے کہ آپ ظالم حکومت کے مقابلہ میں خلافت قبول کیجئے ان تمام حالات نے آپ کو بڑی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ جس دن حضرت حسینؓ ولید سے ملے تھے، اس کے دوسرے دن حضرت عبداللہ بن زبیرؓ مدینہ سے مکہ نکل گئے اوردن بھر ولید اوران کا عملہ ان کی تلاش میں سرگرداں رہا، اس لئے حضرت حسینؓ کا کسی کو خیال نہ آیا، اس کے بعد دوسرے دن ولید نے پھر حضرت حسینؓ کے پاس یاد دہانی کے لئے آدمی بھیجا آپ نے ایک دن کی اور مہلت مانگی، ولید نے اسے بھی منظور کرلیا، اس کے بعد بھی حسینؓ کوئی فیصلہ نہ کرسکے اوراسی کشمکش اورپریشانی میں اپنے اہل وعیال اورعزیز واقربا کو لیکر رات کو نکل کھڑے ہوئے ؛لیکن ابھی تک یہ بھی طے نہیں کیا تھا کہ مدینہ سے نکل کر جائیں تو کدھر جائیں،محمد بن حنفیہ نے مشورہ دیا کہ اس وقت آپ یزید کی بیعت اور کسی مخصوص شہر کے ارادہ سے جہاں تک ہوسکے الگ رہیے اوران لوگوں کو خود اپنی خلافت کی دعوت دیجئے اگر وہ لوگ بیعت کرلیں تو خدا کا شکر ادا کرناچاہیے، اور اگر کسی دوسرے شخص پر لوگوں کا اجتماع ہوجائے تو اسے آپ کے اوصاف وکمالات اورفضائل میں کمی نہ آئے گی، مجھے خوف ہے کہ اگر آپ اس پر شور زمانہ میں کسی مخصوص شہر اورمخصوص جماعت کے پاس جانے کا قصد کریں گے تو ان میں اختلاف پیدا ہوجائے گا ،ایک فریق آپ کی حمایت کرے گا دوسرا مخالفت، پھر یہ دونوں آپس میں لڑیں گے اورآپ ان کے نیزوں کا پہلا نشانہ بنیں گے، اس طرح اس امت کا معززترین اورشریف ترین شخص جس کا ذاتی اورنسبی شرف میں کوئی مقابل نہیں ہے سب سے زیادہ ذلیل اورپست اوراس کا خون سب سے زیادہ ارزاں ہوجائے گا، یہ مشورہ سن کر حضرت حسینؓ نے پوچھا پھر میں کہاں جاؤں ،محمد بن حنفیہ نے کہا مکہ اگر وہاں آپ کو اطمینان حاصل ہوجائے تو کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی، اوراگر وہاں بھی اطمینان حاصل نہ ہوتو کسی اور ریگستان اورپہاڑی علاقہ میں نکل جائیے اوراس وقت تک برابر ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل ہوتے رہیے جب تک ملک کا کوئی فیصلہ ہوجائے اس درمیان میں آپ کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے، جب واقعات سامنے آجاتے ہیں اس وقت آپ کی رائے بہت زیادہ صائب ہوجاتی اورآپ کا طریقہ کار بہت زیادہ صحیح ہوجاتا ہے،حضرت حسینؓ نے محمد بن حنفیہ کا مشورہ پسند کیا اورفرمایا تمہاری نصیحت بہت محبت آمیز ہے تمہاری رائے بھی صائب ہوگی۔ (طبری:۷/۲۲۰،۲۲۱،ملحضا)