انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پہلا غزوہ،غزوہ ابواء یا ودّان(صفر۲ہجری) اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد و قتال کی اجازت ملنے کے بعد ماہ صفر میں حضور(ﷺ (۶۰ مہاجرین کے ساتھ قافلہ ٔ قریش کو روکنے کے لئے ابواء کی طرف روانہ ہوئے ، روانگی سے قبل آپﷺ نے یہ دعا فرمائی: " اے اللہ تو ہی میرا دست و بازو ہے اور نصیر و مدد گار ہے اور تیری مددسے ہی میں قتال کرتا ہوں اور تیرے دشمنوں سے جہاد کر کے ان کا قلع قمع کرتا ہوں ،، سفید علم حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں تھا ، سفر ودّان پر ختم ہوا جہاں سے ابواء چھ میل کے فاصلہ پر ہے اور تجارتی کاروانوں کی منزل ہے ، ابواء میں حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ کامزار ہے ، مسلمانوں کے وہا ں پہنچنے تک قریش اپنا پڑاؤ اٹھا چکے تھے، اس علاقہ میں بنو ضمرہ آباد تھے جن کے سردار مخشی بن عمرو نے مسلمانوں سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ نا آپﷺ بنی ضمرہ سے جنگ کریں گے اور نہ وہ آپﷺ سے لڑیں گے نہ آپﷺ کے خلاف لشکر جمع کریں گے اور نہ دشمن کو مدد دیں گے(ابن سعد) مخشی بن عمرو دوسرا خود مختار حکمران تھا جس نے مملکت مدینہ کو تسلیم کیا، تمام محدثین مغازی کی ابتداء اسی واقعہ سے کرتے ہیں، صحیح بخاری میں بھی اسی کو اول الغزوات قرار دیا گیا ہے،اس سفر میں آپﷺ مدینہ سے پندرہ دن باہر رہے اور اپنی عدم موجودگی میں خزرج کی شاخ بنو ساعدہ کے سردار حضرت سعدؓ بن عبادہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔