انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** راہ کے چند واقعات قریش جب حضور ﷺکی تلاش میں ناکام رہے تو اعلان کیا کہ جو شخص محمد(ﷺ) یا ابو بکرؓ کو قتل کردے گا یا گرفتار کرکے لائے گا تو اس کو ایک خوں بہا کے برابر یعنی سو اونٹ انعام دیا جائے گا ، انعام کی لالچ میں کئی لوگ تلاش میں نکلے ، بنی مدلج کا سردار سُراقہ بن مالک بن جعشم بھی تیر کمان لے کر عود نامی گھوڑے پرسوار ہو ا اور تیر کمان لے کر آپ ﷺ کی تلاش میں نکلا، راستہ میں ٹھوکر لگنے سے گھوڑا گر گیا، عرب کے قاعدہ کے مطابق اس نے ترکش سے فال کے تیر نکالے کہ تعاقب کرنا چاہیے یا نہیں ، فال الٹی نکلی مگر لالچ میں گھوڑا دوڑایا، حضرت ابو بکرؓ چو طرف نظر رکھے ہوئے تھے ، گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر گھبراگئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کو ئی ہمارے تعاقب میں آرہا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں ، اللہ ہمارے ساتھ ہے ،سُراقہ کے گھوڑے نے دوبارہ ٹھوکر کھائی تو اس نے پھر فال دیکھی جو اس کی مرضی کے خلاف نکلی، سو اونٹ کا لالچ کچھ کم نہ تھا، حضور ﷺنے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی کے اس کے شر سے بچائے ، پھر جب وہ گھوڑے پر سوار ہوکر بڑھا تو ٹھوکر کھا کر گرا اور اب کی مرتبہ گھوڑے کے پاوں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے، اب ہمت ٹوٹ گئی اور سمجھ گیا کہ غیبی طاقت محمدﷺ کی محافظ ہے، قریب آکر امان طلب کی اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی(سیرت طیبہ - قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی) آپ ﷺ نے دعا فرمائی، زمین نے گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دئیے، عرض کیا : مجھے امان نامہ عطا ہو، حضور ﷺ کے حکم پرعامر ؓ بن فہیر ہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان کافرمان لکھ کر دیئے جسے سُراقہ نے محفوظ رکھا اور آٹھ سال بعد فتح مکہ ، حنین ا ور طائف کے غزوات کے بعد واپس ہو ئے اور جعرانہ میں مال ِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو اُس وقت سُراقہ نے حاضر ہو کر امان نامہ پیش کیا، حضور ﷺ نے مالِ غنیمت میں سے بہت کچھ عطا فرمایا سُراقہ نے حضور ﷺ کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا جب جانے لگا تو حضورﷺ نے فرمایا: و ہ بھی کیا وقت ہوگا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے، حیران ہو کر پوچھا ، کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن ؟ فرمایا: ہاں : بعد کے واقعات نے بتلایا کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں حضرت سعدؓبن ابی وقاص نے ایران فتح کر کے وہاں کی ساری دولت مدینہ روانہ کی، اس وقت حضرت عمرؓ نے سُراقہ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ کسریٰ کے کنگن اسے پہنائے جائیں، پھر زرِ بفت کا کمر پٹہ ، ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تاج پہنا یا گیا، اور فرمایا کہ ہاتھ اٹھاؤ اور کہو تعریف ہے اس اللہ کی جس نے یہ چیزیں کسریٰ بن ہرمزسے چھین لیں جو کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انھیں بنی مد لج کے ایک بدو سُراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیں، حضرت عمر ؓ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کی تکبیر کہتے رہے۔ ( ابن ہشام بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ) پھر وہاں سے حضور ﷺآگے روانہ ہوئے، اس سفر میں حضرت ابوبکرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کے ردیف رہا کرتے تھے یعنی سواری پر حضور ﷺ کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے ، چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اس لئے لوگوں کی توجہ ان کی طرف نہیں جاتی تھی، حضور اکرم ﷺ پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے اس لئے آپﷺ کی طرف کم توجہ جاتی تھی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابو بکرؓ سے پوچھتا کہ آپ کے آگے کون آدمی ہے؟ حضرت ابوبکرؓ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے، فرماتے:یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں؛ حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے۔ ( صحیح بخاری بحوالہ الرحیق المختوم) اُم معبد کے خیمہ پر حضور اکرم ﷺاور حضرت ابو بکر ؓ صدیق اپنے رہبر کے ہمراہ آگے بڑھے ، راستہ میں بنی خزاعہ کی خاتون اُم معبد کا خیمہ ملا جہاں آپﷺ نے کچھ دیر قیام کیا، اُم معبد کا اصلی نام عاتکہ بنت خالد تھا اور وہ نہایت قوی اور دلیر خاتون تھیں، وہ اپنے خیمہ کے آگے میدان میں چادر اوڑھ کر بیٹھی رہتی تھیں اور مسافروں کو کھلاتی پلاتی تھیں، ا ن حضرا ت نے کھانے کے لئے اُن سے قیمتاً کچھ مانگا لیکن انھوں نے جواب دیا کہ بوجہ قحط سالی گھر میں کچھ بھی نہیں ، پھر آپﷺ کی نظر ایک لاغر بکری پر پڑھی تو پوچھا کہ اس میں کچھ دودھ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کے تھنوں میں بالکل دودھ نہیں اس لئے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے دوسری بکریوں کے ساتھ چرنے نہ جاسکی، آپﷺ نے فرمایا کہ تم اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہوں ، اس نے کہا کہ اگر آپﷺ دودھ دیکھیں تو دوھ لیجے ، پِھر آپﷺ نے بسم اﷲ کہہ کر بکری کے تھن پر ہاتھ لگایا او رفرمایا کہ اے اﷲ اُم معبد کی بکری میں برکت دے ، اس بکری نے اتنا دودھ دیا کہ برتن تھوڑی دیر میں بھرگیا، آپﷺ نے پہلے اُم معبد کو پلایا ، اپنے اصحاب کو پلایا اور خود پیا ، پھر اُم معبد کے برتن میں دوبارہ دودھ دوہا اور اس کو ان ہی کے پاس چھوڑ دیا ، پھر آپﷺ وہاں سے روانہ ہوئے ،تھوڑی دیر کے بعد اُم معبد کے شوہر ابو معبد اکتم بن ابی الحون ریوڑ چراکر واپس آئے تو دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیران ہوگئے! پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا، اُم معبد نے کہا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتی کہ ایک بابرکت آدمی ادھر سے گذرے جو ایسے ایسے تھے، ان کے شوہر نے کہا کہ اس قریشی انسان کا حلیہ تو بیان کرو ، اُم معبد کو حضور سے نہ تو کوئی تعارف تھا نہ کسی طرح کا تعصب ؛بلکہ جو کچھ دیکھا من و عن کہہ دیا، اصل متن عربی میں دیکھنے کی چیز ہے ، اس کا جو ترجمہ مؤلف" رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے وہ حسبِ ذیل ہے: " پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہرکو نکلاہوا نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال،آنکھیں سیاہ و فراغ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ، بلند گردن ، روشن مر دمک ، سرمگیں چشم،باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ ، گویا دل بستگی لئے ہوئے ، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب ، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین ، شیریں کلام ، واضح الفاظ ،کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے ، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ ،زیبندہ منظر والا قد ، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں ، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں، مخدوم ، مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو" اُم معبد کی یہ قلمی تصویر سیرت کا ایک انمول خزانہ ہے( زاد المعاد ، جلد دوم ، رحمۃ للعالمین قاضی سلیمان منصورپوری )بعد میں دونوں میاں بیوی حضور ﷺ کے پاس آکر اسلام قبول کئے ۔ اس کے بعد آپﷺ مقام حجفہ پہنچے جو مکہ کی شاہراہ پر ہے اور جہاں سے مدینہ کی طرف راستہ نکلتا ہے،وہاں بیت اللہ اور مکہ کی یاد سے حضور ﷺ پر اُداسی کے آثار نمایاں ہوئے توحضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ سورۂ قصص کی آیت ۸۵ نازل ہوئی : اے پیغمبر!" جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ ﷺ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے، کہہ دیجئے کہ میرا رب اُسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے " (قرآن ، سورہ قصص ۸ ۲: ۸۵ ) اس آیت کے نزول کے بعد آپﷺ کو بڑی تسکین ہوئی،یہاں سے یہ مختصر قافلہ یثرب کی جانب روانہ ہوا ، اثنائے راہ میں بنی اسلم کا سردار بریدہ بن خصیب اسلمی ملا جس کے ساتھ ستر (۷۰) آدمی تھے ، قریش نے آنحضرت ﷺ کی گرفتاری پر ایک سو اونٹ کے انعام کا اعلان کیا تھا اور بریدہ اسی انعام کے لالچ میں آنحضرتﷺ کی تلاش میں نکلا تھا ، جب آنحضرت ﷺکا سامنا ہوا تو حضورﷺ سے شرفِ ہمکلامی کا موقع ملا، وہ قبیلہ بنی اسلم کے خاندان سہم سے تعلق رکھتا تھا، حضورﷺ نے فرمایا: اے جوان تجھے اسلام سے بڑا سہم ( حصّہ) مل گیا، حضور ﷺ کے اس کلام سے بریدہ بہت متاثرہوا اور ستر (۷۰) ساتھیوں سمیت مسلمان ہوگیااور آپﷺ کے ساتھ شریک سفر ہوگیا، جب یہ قافلہ قبا کے قریب پہنچا تو بریدہ نے حضورﷺ سے عرض کیا : کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ قافلۂ نبوت کے ساتھ آپﷺ کا پرچم بھی موجود ہو، چنانچہ حضور ﷺ نے اپنا عمامہ اتارا ، اپنے ہاتھ سے اسے نیزہ پر باندھا اور بطور پرچم بُریدہ کو عطا فرمایا، انھوں نے اسے ہوا میں لہرا یا اور حضور ﷺ کے علم بردار کی حیثیت سے آگے آگے چلنے لگے،یہ تایخ اسلام کا پہلا پرچم تھا۔ ( قاضی سلیمان منصور پوری ، رحمتہ للعالمین ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمدمجتبیٰ ، ابن جوزی، الوفا) راستہ میں حضرت زبیرؓ بن عوام سے ملاقات ہوئی، وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے آرہے تھے انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اوراپنے خسرحضرت ابو بکرؓ صدیق کی خدمت میں سفید کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا اور کہا کہ قافلہ اور مال کو مکہ پہنچاکر ہجرت کر کے آجاؤں گا۔