انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عثمان کی شہادت اور جنگ جمل لیکن حضرت عثمانؓ کے خلاف جو طوفان اٹھایا گیا تھا وہ ایسا نہ تھا کہ چند مصلحین کے روکنے سے تھم جاتا؛چنانچہ اس نے حضرت عثمانؓ کی شمع حیات بجھا کر دم لیا، آپ کی شہادت پر صحابہ کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک گروہ خانہ نشین ہوگیا تھا دوسرا حضرت علیؓ کے ساتھ آپ کی حمایت میں تھا اور تیسرا خلیفہ مظلوم کا قصاص لینے پر آمادہ تھا، اس آخری جماعت کے سرگروہ حضرت طلحہؓ ،زبیرؓ، عبداللہ اورعائشہ صدیقہؓ تھیں، اس اختلاف نے صحابہ کے دوگروہوں کو باہم صف آرا کردیا حضرت عثمانؓ کے انتقام لینے والے گروہ کی قیادت حضرت عائشہؓ کرتی تھیں اور حضرت علیؓ ان کے مقابلہ میں صف آرا تھے، عین میدان جنگ میں جب مسلمانوں کی تلواریں ایک دوسرے کا خون پی رہی تھیں، حضرت علیؓ نے عبداللہ کے والد زبیرؓ کو رسول اکرم ﷺ کی ایک پیشین گوئی یاد دلائی زبیرؓ اسے سن کر الٹے پاؤں لوٹ گئے آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ نے روکنے کی بہت کوشش کی ؛لیکن حواری رسولﷺ آقائے نامدارﷺ کی پیشین گوئی سننے کے بعد ایک لمحہ کیلئے بھی اس کا مصداق نہیں بن سکتا تھا۔ (مستدرک حاکم:۳/۳۶۶) محتاط صحابہ نے اس خانہ جنگی کو روکنے کی بہت کوششیں کیں، لیکن کوئی کوشش بھی کارگر نہ ہوئی اور مسلمانوں کے دو مقدس گروہوں میں نہایت خون آشام جنگ شروع ہوگئی ،حضرت عائشہؓ اونٹ پر سوار اپنی فوج کی حوصلہ افزائی فرماتی تھیں یہ جنگ دو مقدس ہستیوں کی غلط فہمی اورخطائے اجتہادی کا نتیجہ تھی، لیکن ان کے پیروؤں نے شخصیتوں کا بھی لحاظ اٹھادیا تھا اورحضرت عائشہؓ کے اونٹ پر برابر تیروں کا مینہ برس رہا تھا اور نا موس نبوت کے فدائی اونٹ کے گرد پروانہ وار حریم نبوت کی شمع پر فدا ہورہے تھے، ابن زبیرؓ بھی خالہ کی حفاظت میں سربکف محمل کے پاس پہنچے، حضرت عائشہؓ نے محمل کے اندر سے پوچھا کون؟ ابن زبیرؓ نے کہا! اماں آپ کا بیٹا، حضرت عائشہؓ نے پیار کے لہجہ میں ڈانٹا ،ابھی خالہ بھانجے میں گفتگو ہورہی تھی کہ حضرت علیؓ کی فوج سے اشترنخعی حضرت عبداللہ کی طرف لپکا انہوں نے تلوار سونت لی اوردونوں میں تلوار چلنے لگی اشترنے ایسا وار کیا کہ ابن زبیرؓ کا سر کھل گیا، انہوں نے بھی جواب دیا مگر اوچھا پڑا اوردونوں باہم دست و گریبان ہوگئے لیکن دونوں طرف آدمیوں نے بڑھ کر چھڑا دیا۔ (ابن اثیر:۳/۲۰۶)