انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہ اور قضاوقدر اسی عقیدہ کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام کی گردنیں عین کامیابی وفتوحات کے وقت قادر مطلق کے آگے جھک جاتی تھیں اورناکامی کی حالت میں ان کے دل ناامیدی سے دوچار نہیں ہوتے تھے اوران کی عملی زندگی کا جو نتیجہ بھی پیش آتا تھا وہ اس کو اپنی طرف سے نہیں بلکہ خداوند عالم کی طرف سے سمجھ کر خاموش ہوجاتے تھے۔ مالی بیچارگی، سیاسی مصیبت، عزیزوں کی جدائی،لڑائیوں کی ناکامی وغیرہ کسی بھی موقع پر وہ رحمت الہی سے مایوس ہونا نہیں جانتے تھے اورہر خطرناک سے خطرناک کام کے لیے وہ قدم اٹھا بیٹھتے تھے،کہ ان کا یقین تھا کہ موت اپنے وقت پر آئیگی اورجو کچھ ہوتا ہے وہ ہوکر رہیگا،اسی لیے ان کے دلوں میں وہ عزم ہوتاتھا کہ نہ اس کو پہاڑروک سکتے تھے،نہ سمندر بہالے جاسکتے تھے،اورنہ حوادث کا طوفان اسے اکھاڑ سکتا تھا۔ "وَمَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا، وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا،وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا، وَسَنَجْزِی الشّٰکِرِیْنَoوَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ، مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ،فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا،وَاللہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ"۔ (آل عمران:۱۴۶) اورکسی شخص کو موت آنا ممکن نہیں بدوں حکم خدا کے اس طورسے کہ اس کی میعاد معین لکھی ہوئی رہتی ہے اور جوشخص دنیوی نتیجہ چاہتا ہے تو ہم اس کو دنیا کا حصہ دے دیتے ہیں اور جو شخص اخروی نتیجہ چاہتا ہے تو ہم اس کو آخرت کا حصہ دیں گے اور ہم بہت جلد عوض دیں گے حق شناسوں کو اوربہت نبی ہوچکے ہیں جن کے ساتھ ہوکر بہت بہت اللہ والے لڑے ہیں سونہ ہمت ہاری انہوں نے مصائب کی وجہ سے جو ان پر اللہ کی راہ میں واقع ہوئیں اور نہ ان کا زور گھٹا اور نہ وہ دبے اوراللہ تعالی کو ایسے مستقل مزاجوں کے محبت ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) ان آیتوں نے یہ واضح کردیا کہ قضاء وقدر کے عقیدے کا نتیجہ پستی وسستی اورکم ہمتی نہیں بلکہ بلندی واستقلال اورصبر وثبات ہے۔