انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نظم ونسق ایک انگریز مورخ لکھتا ہے کہ امیر عبدالرحمن کی طبیعت میں مروت وفیاضی کا طبعی میلان تھا لیکن غذاروں اور باغیوں نے اس کو سختی وسزادہی پر مجبور کیا اس کا طبعی میلان علم وادب کی طرف تھا مگر ضرورت نے اس کو نہایت محتاط اور تجربہ کار سپہ سالار بنادیا تھا ،عبدالرحمن کی ابتدائی عمر دمشق کے انتہائی تکلفات میں گزری تھی مگر مصیبت آئی اور افلاس وغریبی سے پالاپڑا تواس نہ نہایت خوشی اور بلند ہمتی سے سب کچھ برداشت کیا ابھی پوری طرح اس کی سلطنت قائم نے ہونے پائی تھی کہ اس نے مشرق کےدوردراز علاقوں سے بنو امیہ اور اس کے متوسلین کو اپنے خرچ سے اندلس بلوایا اور ان میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبے کے مدوافق عہدے اور عزتیں عطا کیں عبدالرحمن کی ذکاوت ومآل اندیشی کے دشمن بھی مداح تھے عبدالرحمن تمام مصائب وآلام کو خاموشی سے برداشت کرلیتا تھا۔ عبدالرحمن نے اپنے ملک مقبضہ کو چھ صوبوں میں تقسیم کیاتھا ہر ایک صوبہ میں ایک فوجی سپہ سالار رہتا تھا اس سپہ سالارکے ماتحت دوعامل اور چھ وزیر ہوتے تھے ان حکام کے مددگار قاضی اوردیگر حکام ہوتے تھے صدر دفتر قرطبہ کو یہ لوگ تمام ضروری اطلاعات بھیجتے رہتے تھے عبدالرحمن ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا اس نے ایسے قوانین جاری کیے تھے کہ رعایا خوش حال ہو اور اپنے املاک پر آزادی کے ساتھ بلامداخلت غیرے قابض ومتصرف رہے۔ عبدالرحمن کو تعلیم اور علم وادب کی اشاعت کاخاص طور پر شوق تھا،تمام ملک اندلس میں عبدالرحمن نے سڑإیں بنوائیں ڈاک کا انتظام کیا ہر پڑاؤ پر گھوڑے رکھے تاکہ جلد از جلد ملک سے دارالخلافہ قرطبہ میں اطلاعات پہنچ سکیں۔ عبدالرحمن نے لٹیروں اور ڈاکوؤں کا طاقت وسطوت کے ساتھ پوری طرح انسداد کردیاتھا ،بربری لوگ جواپنی عادت سے کبھی باز نہ آتے تھے،پہلی مرتبہ امیر عبدالرحمن ہی کے زمانے میں وہ خاموش ہوکر بیٹھے۔ عبدالرحمن اپنے ممالک محروسہ کا ہمیشہ دورہ کرتا رہتا تھا تاکہ اپنے عاملوں کا اندازہ کرے کہ وہ اس کی رعایا پر کس طرح حکومت کرتے ہیں ،جہاں جہاں امیر کاگزر ہوتا وہاں کے محتاجوں اور عسیرالحال لوگوں کی دستگیری کرتا اور لوگوں کی اصلاح اور فائدے کے کام جاری کرتا۔ امیر عبدالرحمن کی فیاضیاں عام تھیں اور سب ان سے مستفیض ہوتے تھے اگرچہ عبدالرحمن نے ہرجگہ مسجدیں اور رفاہ عام کی عمارتیں بنوائیں،لیکن دارالحکومت قرطبہ کی شان وشوکت بڑھانے کے لیے اس نے خوبصورت عمارتیں بنانے میں زیادہ ہمت وتوجہ صرف کی محل شاہی کےصحن میں عبدالرحمن نے خرما کا ایکدرخت نصب کرایا چونکہ اندلس میں خرما کاپہلادرخت تھا ،قرطبہ کے قریب ایک باغ رصافہ کے نام سےلگایا جو اپنے دادا ہشام کے باغ رصافہ کے نام پر تھا ،قرطبہ میں ایک ٹکسال قائم کی جس میں دینار ودرھم اسی نمونے ک مسکوک کرائے جیسے کہ شام میں رائج اور دمشق میں مسکوک ہوتے تھے،دنیا کے ہر حصہ سے علماء وفضلاء کو بلایا اور ان کی خوب قدر دانی کی ،علمی تحقیقات اور فلسفیانہ موشگافیوں کے لیے مجلسیں مقرر کیں اپنے بیٹوں کو بہترین طریقہ پر تعلیم دلائی اور ان کو حکم دیا کہ وہ دفتر شاہی اور قاضیوں کی کچہریوں میں حاضر ہوکر معاملات کو دیکھا کریں اہم مقدمات اور سرکاری معاملات کےفیصلے بھی ان شہزادوں کے سپرد کیے جاتے تھے۔ عام لوگوں میں علم کا شوق پیدا کرنے کے لیےمشاعرے اورمناظرے کی مجلسیں مقرر ہوتیں اچھی نظموں اور علمی مناظروں کی کامیابی پر انعامات دیے جاتے تھے امیر عبدالرحمن ان تمام علمی مجلسوں میں خود بھی شریک ہوتا تھا اندلس کی عیش پسند آب وہوا مال ودولت کی فراوانی نے امیر عبدالرحمن کے سپاہیانہ اخلاق میں کوئی تغیر پیدا نہیں کیا تھا اس کے اتقا اور پرہیزگاری میں کیس وقت تغیر اور کمی محسوس نہیں ہوئی قرطبہ کی مشہور آفاق مسجد کے لیے جو مقام سب سے زیادہ موزوں اور مناسب تھا وہ عیسائیوں کے قبضے میں تھا امیر عبدالرحمن نے اس پر زبرستی قبضہ مناسب نہیں سمجھا ،جب خود ہی عیسائیوں نے اس کو فروخت کرناچاہا تو امیر نے اس کو قیمت دے کر خریدا اور شہر کے متعدد مقامات میں ان کو گرجا تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ امیر عبدالرحمن میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو ایک عقل مند سیاست دان اور روشن دماغ بادشاہ میں ہونی چاہیے، جس تاریخ سے امیر عبدالرحمن نے تخت اندلس پر قدم رکھا اسی تاریخ سے ملک اندلس خلافت مشرقیہ اسلامیہ کی ماتحتی سے آزاد ہوگیا لیکن عبدالرحمن نے نہایت دانائی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے آپ کو امیرہی کہلایا اور خلافت کادعوی نہیں کیا دس برس کے بعد خطبہ میں اپنا نام داخل کیا عبدالرحمن اس بات کو جانتا تھا کہ ملک اندلس میں بہت سے ایسے مسلمانمجود ہیں جو بنو امیہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور عباسیوں سے محبت رکھتے ہیں اور عام طور پر اسلامی سلطنت کا ایک ہی مرکز سمجھتے ہیں جو مشرق میں موجود ہے اگر امیر عبدالرحمن اپنے آپ کو خلیفہ کہلاتا تو یقیناً اس کے خلاف تمام مسلمان شمشیر بدست ہوجاتے اور عبدالرحمن کو گستاخ اور بے ادب قار دیتے اندلسی مسلمانوں کی اس حالت کو بتریج اصلاح پذیر کیاگیا اور عبدالرحمن نے مناسب وقت پر اپنے آپ کو امیرا لمؤمنین اور خلیفۃ المسلمین کہلایا ایک مورخ لکھتا ہے کہ عبدالرحمن کی تقریر نہایت شستہ اور دل آویز تھی نہایت سنجیدہ اور معاملہ فہم اور منتطم شخص تھا کسی کام کے کرنے میں جلدی نہیں کرتا تھا لیکن جس کام کا ارادہ کرلیتا پھر اس کو بغیر ختم کیے نہیں چھوڑتا تھا لہو ولعب اور ضرورت سے زیادہ آرام کو اپنے پاس نہیں پھٹکنے دیتا تھا سفید لباس اکثر پہنتا حاجت مندوں کو اپنے پاس پہنچنے کے لیے آسانی بہم پہنچانے کی غرض سے درباروں کو موقوف کردیاتھا کوئی حاجت مند اگر کھانے کے وقت اپنی درخواست لےکر جاتا تو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھاکر کھانا کھلاتا۔ عبدالرحمن بن معاویہ دنیا کے ان عظیم الشان انسانوں میں ہے جنہوں نے قوموں کےزندہ کرنے سلطنتوں کے بنانے اور روئے زمین کے حالات میں تغیر عظیم پیدا کرنے میں ایسی محیرالعقول طاقتوں کا اظہار کیا ہے کہ آسمان شہرت پر ان کے نام ستارہ بن کر چمک رہے ہیں اور زندہ جاوید بن گئے ہیں ۔ عبدالرحمن بن معاویہ کے حالات پر جو اوپر مذکور ہوئے ہیں پھر ایک مرتبہ غور کرو اور سوچو کہ اس نے کیسا غیر معمولی دل ودماغ پایا تھا سب سے بڑھ کر قابل تعریف چیز امیر عبدالرحمن کی سپاہیانہ زندگی تھی کہ مسجد قرطبہ کی تعمیر کے وقت وہ امیر اندلس ہونے پر معمولی مزدوروں کی طرح ان کے ساتھ کام کرنے اور پتھرڈھونے کو عیب نہیں جانتا تھا