انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایک قابل غور بات حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ نے یہاں عالم کے لیے عالم کا لفظ نہیں عراقی کا لفظ استعمال کیا ہے "اعراقی انت" اورعراقی اورطالب علم کو ایک دوسرےکے مقابل جگہ دی ہے، معلوم ہوا ان دنوں عراق علم کا ایک بڑا مرکز تھا اور وہاں پورے عالم عرب کی نادرہ روز گار ہستیاں آباد تھیں، جنہیں بجا طور پر علم اسلام کا نمائندہ کہا جاسکتا ہے، امام ابو حنیفہؓ، امام سفیان ثوری،امام ابو یوسف، امام سفیان بن عینیہ، امام محمد بن حسن اورعبداللہ بن مبارک جیسے فضلا اسی جگہ سے اٹھے تھے، یہ وہی سرزمین ہے جہاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت حسن بصری جیسے اکابر پہلے سے علم کی شجرکاری کرچکے، اس پورے ماحول میں صحابہؓ کے عمل کو حجت سمجھا جاتا تھا اور جہاں کسی صحابی سے کوئی عمل ثابت ہوا اس سے سنت اسلام قائم ہوتی تھی۔ کسے معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے ؛مگر چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس کے ذریعہ دعا کرنا جائز سمجھتے تھے، آپ نے اسے سنت قرار دیا اورسنت کا معنی اس ماحول میں یہی سمجھا گیا کہ ایک ایسی راہ ہے جس پر پہلے چلا جاچکا ہے، سنت کا لفظ طریقہ، سلوک فی الدین کے معنی میں عام تھا اور مسلمانوں کے لیے کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کسی صحابی سے انہیں کوئی بات پہنچے اور وہ اسے ٹھکرادیں، الا یہ کہ کسی دوسرے بزرگ صحابی کا قول دوسری طرف ہو، عمل صحابہ ان کے لیے اس پہلو سے ایک روشن حجت تھی۔