انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ہشام ؓبن حکیم نام ونسب ہشام نام،باپ کا نام حکیم تھا، نسب نامہ یہ ہے،ہشام بن حکیم بن خرام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی قرشی اسدی ،ام المومنین حضرت خدیجہ صدیقہؓ ہشام کے والد حکیم کی پھو پھی تھیں۔ اسلام فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے (استیعاب:۲/۶۱۱) قبول اسلام کے بعد آنحضرتﷺ سے قرآن کی بعض سورتوں کی تعلیم حاصل کی۔ وفات حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنادین کے معرکہ میں شہید ہوئے،لیکن بروایتِ صحیح جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا،ہشام حمص اورفلسطین میں احتساب کرتے تھے اوریہ دونوں مقام اجنادین کے بعد فتح ہوئے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہشام کے صحیفۂ اخلاق میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا عنوان بہت نمایاں ہے،انہوں نے اس کو اپنا مقصدِ حیات قرار دے لیا تھا ،تمام ارباب سیر متفق اللفظ ہیں کہ "کان ممن یامر بالمعروف وینہیٰ عن المنکر" یعنی ہشام امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرنے والوں میں تھے،اس فریضہ کے خاطر انہوں نے کسی سے دوستانہ تعلقات نہیں پیدا کئے اوراہل وعیال کے علائق سے بھی آزاد رہے، ایک سیاح کی طرح چکر لگا کر ہر جگہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فرض ادا کرتے تھے۔ (استیعاب واصابہ تذکرہ شہام) ان کی تبلیغ کا دائرہ غربا کے چھونپڑوں سے لیکر امراء وعمال کے قصور اورایوانِ حکومت تک یکساں وسیع تھا، عہد فاروقی کے مشہور فوجی افسر اوروالیٔ حکومت عیاض نے فتوحات کےسلسلہ میں کسی کو کوڑے لگائے،ہشام نے انہیں سخت تنبیہ کی ،عیاض ایک ممتاز افسر تھے، ان کو ہشام کی یہ علانیہ تنبیہ بہت ناگوار ہوئی اور اس سے ان کو بڑی تکلیف پہنچی، چونکہ ہشام کی اس میں کوئی ذاتی غرض شامل نہ تھی،اس لیے دو تین دن کے بعد انہوں نے عیاض سے معذرت کی،آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد سنایا کہ آخرت سے زیادہ عذاب اس شخص پر ہوگاجو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیگا، عیاض نے کہا تم نے رسول اللہ ﷺ کے جو افعال دیکھے اور جو اقوال سنے وہ میں نے بھی دیکھے اورسنے؛ لیکن تم رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بھول گئےکہ جوشخص کسی حاکم کو نصیحت کرنا چاہے تو اس کو علانیہ نہ کرنا چاہیے؛بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کے الگ لیجا کر سمجھا دینا چاہیے،اگر وہ قبول کرلے تو فبہا ورنہ کہنے والا اپنے فرض سے سبکدوش ہوگیا۔ (مسند احمد بن حنبل:۳/۴۰۴) ایک مرتبہ چند ذمیوں کو دھوپ میں کھڑا دیکھا،سبب پوچھاتو معلوم ہواجزیہ نہ ادا کرنے کے جر م میں سزادیجارہی ہے،یہ سن کر بولے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتا ہے خدا اس کو آخرت میں عذاب دیگا، اورفلسطین کے حاکم عمیر بن سعد کو یہ حدیث سنا کر ذمیوں کو تکلیف سے نجات دلائی۔ (مسند احمد بن حنبل:۳/۴۰۲) حضرت عمرؓ کو ان کے اس احتساب پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا جسے وہ ناپسند کرتے تو فرماتے ،جب تک میں اور ہشام زندہ ہوں،ایسا نہیں ہوسکتا ۔ (استیعاب:۲/۶۱۹) فضل وکمال قرآن کریم کی بعض سورتوں کی تعلیم براہ راست زبانِ وحی والہام سے حاصل کی تھی،اس لیے بعض مرتبہ قرأت میں ان کا علم کبار صحابہ کے مقابلہ میں زیادہ صحیح نکلتا تھا، ایک مرتبہ ہشام نماز میں سورۂ فرقان پڑھ رہے تھے،حضرت عمرؓ نے سنا تو انہیں عام قرأت سے ان کی قرأت میں اختلاف معلوم ہوا، ہشام نے سلام پھیرا، توحضرت عمرؓ نے ان کو چادر سے کس لیا اورپوچھا اس طریقہ سے تم کو کس نے پڑھایا انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے ،حضرت عمرؓ نے فرمایا تم جھوٹ کہتے ہو، مجھ کو رسول اللہﷺ نے ہی یہ آیتیں تعلیم دی ہیں مگر اس میں اور تمہاری قرأت میں اختلاف ہے اورانہیں آنحضرتﷺ کی خدمت میں لاکر عرض کیا یا رسول اللہ ! قرآن کی قرأت یہ ایسے حروف میں کرتے ہیں جس کے خلاف آپ نے مجھے تعلیم دی ہے، آنحضرتﷺ نے دونوں سے پڑھواکر سنا اورفرمایا ان دونوں قرأتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے، قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، جو ان میں آسان معلوم ہوا سے اختیار کرو۔ (بخاری، ابواب فضا ئل القرآن) حدیث میں ان کا کوئی قابلِ ذکر پایہ نہیں ہے،تاہم حدیث کی کتابیں ان کی مرویات سے بالکل خالی نہیں ہیں،جبیر بن کثیر اور عروہ نے ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب الکمال:۴۰۹)