انوار اسلام |
س کتاب ک |
نمازِ استسقاء کے مسائل اور احکام استسقاء کسے کہتے ہیں اور اس کے احکام و مسائل کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو، گویا نماز اللہ سے مدد حاصل کرنے کی کنجی ہے، چنانچہ مختلف ضرورت کے مواقع پر مخصوص نمازیں اور کسی بھی ضرورت کے لئے نماز حاجت رکھی گئی ہے، انسان کی ایک بڑی ضرورت پانی ہے، اگر لوگ قحط سے دوچار ہوجائیں تو اس موقع کے لئے مخصوص نماز "استسقاء"رکھی گئی ہے ، استسقاء سے متعلق ضروری احکام اس طرح ہیں: (۱)جب نہریں خشک ہوجائیں، انسان و حیوان کے پینے کی ضرورت نیز کاشت کی ضرورت کے لئے پانی میسر نہ ہو یا پانی ہو مگر ناکافی ہو تو ایسی صورت میں استسقاء مسنون ہے۔ (۲)نماز استسقاء کے اصل معنی پانی طلب کرنے کے ہیں، اس لئے پانی کے واسطے کی جانے والی دعاء اور نماز دونوں کو استسقاء کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ سے جمعہ کے دن خطبہ میں بارش کی دعاء پر اکتفاء کرنا بھی ثابت ہے اور دو رکعت نمازِ استسقاء پڑھنا بھی، اسی لئے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک دونوں باتوں کی گنجائش ہے، یہ بھی کہ دعاء پر اکتفاء کیا جائے اور یہ بھی کہ باضابطہ نماز ادا کی جائے ، البتہ چونکہ قرآن مجید میں نماز کو اللہ تعالیٰ کی مدد کی کنجی قرار دیا گیا ہے اس لئے نماز پڑھنا بہتر ہے۔ (۳)مستحب طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے تین دن روزہ رکھا جائے، گناہوں سے توبہ کی جائے اور اگر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہورہی ہو تو اس کی تلافی کی جائے۔ (۴)پھر چوھتے دن نماز کے لئے نکلے، پیدل جانا بہتر ہے، پرانے دھلے ہوئے کپڑے ہوں، اگر پیوند والے کپڑے ہوں تو وہ پہن لیں، چلتے ہوئے سر جھکائے رہیں، فروتنی اور عاجزی کی کیفیت ایک ایک اداء سے نمایاں ہو، توبہ اور استغفار کرتے رہیں اور بہتر ہے کہ نکلنے سے پہلے کچھ صدقہ بھی کرلیں۔ (۵)استسقاء میں بوڑھوں ، بچوں، یہاں تک کہ جانوروں کو بھی ساتھ لے جانا مستحب ہے، گویا یہ اللہ تعالیٰ سے رحم کی طلب ہے کہ ان کمزوروں کے طفیل ہم سب کو پانی سے نوازا جائے، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو تمہارے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (۶)نماز استسقاء تنہاء بھی پڑھی جاسکتی ہے، امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک نماز استسقاء کے لئے جماعت ضروری نہیں، لیکن جماعت کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جماعت کے ساتھ یہ نماز ادا فرمائی ہے اور جس عمل سے جماعت ثابت ہو اس کو اجتماعی طور پر کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ (۸)نماز کی کیفیت یہ ہوگی کہ امام دو رکعت نماز پڑپائے گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ صحاؓبہ کو دو رکعت نماز پڑھائی ہے۔ (۹)بہتر ہے کہ نماز میں پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۂ غاشیہ پڑھی جائے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نماز استسقاء میں ان سورتوں کا پڑھنا ثابت ہے، قراءت جہر کے ساتھ کی جائے گی، کیونکہ رسول اللہ ﷺکے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عید کی طرح نماز استسقاء پرھائی اور نماز عید میں قراءت بلند آواز سے کی جاتی ہے۔ (۱۰)نماز کے بعد امام خطبہ دے گا، یہ خطبہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک مسنون ہے، جیسا کہ نماز عید کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے، یہ خطبہ زمین ہی پر کھڑے ہوکر دیا جائے گا۔ (۱۱)خطبہ کے بعد امام قبلہ رخ ہوکر دعاء کرے، دعاء زور سے بھی کی جاسکتی ہے اور آہستہ بھی، دوسرے لوگ امام کے پیچھے قبلہ رخ بیٹھیں گے اور دعاء کریں گے، اگر امام بلند آواز سے دعاء کررہا ہو تو لوگ اس پر آمین کہتے ہیں جائیں گے۔ (۱۲)عام دعاؤں میں ہاتھ سینے تک اٹھایا جائے گا لیکن نماز استسقاء میں ہاتھ سر تک اٹھانا مسنون ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اتنا بلند فرمایا کہ بغلِ مبارک کی سفیدی نظر آتی تھی، البتہ ہاتھ کو سر کی مقدار سے اونچا نہ کریں کہ رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح دعاء کرنا منقول ہے، خاص طور پر استسقاء کی نماز میں ہاتھ اس طرح اٹھایا جائے گا کہ پشت اوپر کی طرف ہو اور ہتھیلی زمین کی طرف کہ حضرت انس ﷺ نے حضور ﷺ کا یہی عمل نقل کیا ہے، بعض دوسری احادیت میں بھی یہ بات منقول ہے۔ (۱۳)رسول اللہ ﷺ نے نیک فالی کے طور پر چادر کو پلٹ دیا تھا، اسی لئے امام محمدؒ کی رائے ہے کہ خطبہ کا کچھ حصہ پڑھنے کے بعد چادر پلٹ دی جائے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے ﷺ نے نماز سے پہلے ہی چادر پلٹ دی تھی اور بعض روایات میں ہے کہ دعاء سے پہلے آپ ﷺ نے یہ عمل کیا تھا، اس لئے خطبہ کے بعد دعاء سے پہلے یا نماز سے پہلے اس عمل کو کرنا چاہئے، اس کا مقصد نیک فالی ہے کہ :اے اللہ! جیسے ہماری اس حالت میں تغیر ہوا ہے ویسے ہی موسم میں بھی تغیر فرمادیجئے۔ چادر کو پلٹنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں، پہلے اوڑھتے ہوئے جو حصہ اوپر تھا اب اسے نیچے کردیا جائے یا جو حصہ دائیں تھا بائیں کردیا جائے یا اندر کے حصہ کو باہر یا باہر کے حصہ کو اندر کردیا جائے ۔ (۱۴)دعاء میں خوب الحاح و زاری کی کیفیت ہونی چاہئے، رسول اللہ ﷺ سے دعاء کے مختلف الفاظ منقول ہیں، یہاں ایک مختصر دعاء نقل کی جاتی ہے، جسے امام ابو داؤدؒ نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے: اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا مَرِيعًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ ۔ اے اللہ! ہمیں بھر پور ، خوشگوار، شادابی لانے والی، نفع بخش، غیر نقصاندہ ،جلدی نہ کہ تاخیر والی بارش عطا فرما۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۳۷۷،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)