انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اہل حدیث باصطلاح دورِ جدید اس اصطلاح جدید میں جماعت اہلحدیث سے مراد پاک وہند کا ایک معروف دینی حلقہ ہے جوجمہور اہل السنۃ مسلمانوں سے ترکِ تقلید پرمختلف ہے؛ لیکن بنیادی عقائد میں یہ حضرات زیادہ تراہل السنۃ ہی ہیں، ان کے حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ سے تقریباً اسی قسم کے فروعی اختلافات ہیں جس طرح کے اختلافات مذاہب اربعہ میں آپس میں ہیں، کچھ ایسے اختلافات بھی ہیں جن میں یہ چاروں اماموں کے خلاف ہیں، جیسے "طلاقِ ثلاثہ ایک مجلس میں" اسے یہ ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں اور چاروں اماموں میں سے ایک بھی اس طلاق کے ایک ہونے کا قائل نہیں، امام نوویؒ شارح صحیح مسلم لکھتے ہیں: "الْعُلَمَاء فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتَ طَالِق ثَلَاثًا فَقَالَ الشَّافِعِيّ وَمَالِك وَأَبُوحَنِيفَة وَأَحْمَد وَجَمَاهِير الْعُلَمَاء مِنْ السَّلَف وَالْخَلَف: يَقَع الثَّلَاث" (شرح صحیح مسلم:۱/۴۷۸) ترجمہ:ائمہ اربعہ ہی نہیں سلف وخلف کے جمہور علماء کہتے ہیں طلاقیں تین واقع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح یہ حضرات آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں؛ حالانکہ چاروں اماموں میں سے ایک بھی بیس سے کم کا قائل نہیں، مسجد حرام اور مسجد نبوی میں آج تک بیس رکعت تراویح ہی پڑھی جارہی ہیں اور یہی حنابلہ کا مؤقف ہے، امام شافعیؒ بھی اس میں جمہور اُمت کے ساتھ ہیں، امام ترمذی لکھتے ہیں: "وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَارُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَهُوَقَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وقَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً"۔ (ترمذی،كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ ،بَاب مَاجَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۷۳۴، شاملہ، موقع الإسلام) اس قسم کے چند مسائل ہیں جن میں غیرمقلدین حضرات جمہور اہل السنۃ والجماعت سے مختلف ہیں؛ لیکن ان جزوی اختلافات کودبایا جائے اور دیگرفروعی اختلافات کوتوسع عمل پرمحمول کیا جائے تواختلاف مسلک کے باوجود یہ حضرات خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کے موضوع پرجمہور اہل السنۃ کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوسکتے ہیں، شیعہ یامعتزلہ یاخوارج کے بالمقابل سنی کا لفظ آئے تواس سنی دائرہ میں جماعت اہل حدیث بھی شامل ہوگی، ہاں ان میں جولوگ ائمہ کرام کے گستاخ ہوں یافقہ حنفی کے بعض باریک مسائل پر تمسخر اور استہزاء کا انداز اختیار کرتے ہوں وہ اہلحدیث ہونے کے مدعی ہونے کے باوجود اس دائرہ میں جواحترام سلف پرقائم ہے شامل نہ رہیں گے، انہیں اہلحدیث کہنا یقیناً غلط ہوگا اور اس میں توکوئی شبہ نہیں کہ وہ اہل سنت میں داخل نہیں ہیں۔ سنہ۱۹۵۶ھ میں پاکستان میں سکندرمرزا کا دور تھا، پنجاب میں نواب مظفر علی قزلباش برسراقتدارتھے، شیعہ سنی آویزش زور پر تھی، پولیس افسران شیعوں کودھڑادھڑ ماتمی جلوسوں کے لائسنس دے رہے تھے، جہاں جہاں نئے لائسنس جاری ہوتے فرقہ وارانہ اختلافات کی آگ اور بھڑکتی جاتی، محسوس ہوتا کہ یہ لائسنس ایک فرقے کے مطالبہ کوپورا کرنے کے لیے بلکہ فرقہ وارانہ فضا کوگرم نے کے لیئے ہی جاری کیئے جارہے ہیں، سنی دائروں میں ان حالات کے باعث سخت اضطراب تھا، ان دنوں حقوق اہل السنۃ کے تحفظ کے لیئے "سنی بورڈ" کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی قادریؒ، مولانا سیدمحمد داؤد غزنویؒ، مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری، مولانا عبدالستار خاں نیازی اور احقر خالد محمود عفااللہ عنہ سب اس سنی بورڈ کے رکن تھے، اُن دنوں سنی دائرہ ان سب مسالک عمل کومحیط سمجھا گیا تھا۔ سواس اصطلاح جدید میں اہلحدیث سے مراد اسلام کے بنیادی عقائد پرکوئی مختلف گروہ نہیں، چند فروعی امتیازات کا حامل ایک طبقہ عمل ہے، جوترک تقلید کے عنوان سے حدیث سے براہِ راست نسبت کا مدعی ہے، جن مسائل میں اختلاف ہے وہ زیادہ تروہی ہیں جوائمہ اربعہ کے مابین بھی مختلف فیہ ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ انسان حق سے تبھی نکلتا ہے جب ان چاروں مذاہب کے دائرہ عمل سے باہر آجائے اور ایسے مواقع اس باب میں کم ہیں اور جو ہیں ان میں واقعی اُصولی اختلاف ہے، تقلید ہمیشہ سے جائز رہی ہے اسے حرام کہنا یقیناً حرام ہے۔ ہندوستان میں جماعت اہلحدیث "بہ اصطلاح جدید"کا قیام اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد شروع ہوا ہے، فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کے وقت ہندوستان کے کسی گوشہ میں فقہی اختلاف مسلک کی آواز نہ اُٹھی تھی، سب اہل السنۃ والجماعت ایک ہی فقہی مسلک کے پیرو تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم اس عظیم علمی خدمت میں شریک تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں: "خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے؛ چونکہ اکثرلوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کوپسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک یہ لوگ (ہندوستان کے مسلمان) مذہب حنفی پرقائم رہے اور ہیں اور اسی مذہب کے عالم اور فاضل اور قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے؛ یہاں تک کہ ایک جمِ غفیر نے مل کر فتاویٰ ہندیہ جمع کیا اور اس میں شاہ عبدالرحیم صاحب والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی بھی شریک تھے"۔ (ترجمانِ وہابیہ تصنیف نواب صدیق حسن خان مرحوم:۲۰) مغلیہ سلطنت کے زوال پرمسلمانوں پرکوئی اجتماعی گرفت نہ رہی توعام ذہن کچھ آزادی فکر کی طرف مائل ہوئے، نواب صدیق خان صاحب اس سے پہلے لکھ آئے ہیں: "کتب تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوامن وآسائش وآزادگی اس حکومت انگریزی میں تمام خلق کونصیب ہوئی کسی حکومت میں بھی نہ تھی اور وجہ اس کی سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھی گئی کہ گورنمنٹ نے آزادی کامل ہرمذہب کودی"۔ (ترجمانِ وہابیہ تصنیف نواب صدیق حسن خان مرحوم:۱۶) عہد جدید کی اس آزادی میں تقلید کا بندٹوٹا اور پھردیکھتے دیکھتے کچھ لوگ مختلف کشتیوں میں بہہ نکلے اور تاریخ نے مسلمانوں کا وہی حال کیا جومنتشراقوام کا ہوتا ہے، پیشتراس کے کہ اہلحدیث باصطلاح جدید پر کچھ تاریخی بحث کی جائے کہ اس نام سے ایک فقہی مسلک کی ابتدا کب سے ہوئی اور اس نام سے ایک فرقہ عمل کب سے موسوم ہوا، مناسب ہوگا کہ مختصرطور پر یہ بتلادیا جائے کہ اورنگ زیبؒ سے بہت پہلے ہندوستان میں علم حدیث آچکا تھا اور اس وقت تک لفظ اہلحدیث اصطلاح قدیم کے مطابق ہی چلا آرہا تھا۔