انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حماد بن زیدؒ اس نام کے دو بزرگ اس عہد میں مشہور ہوئے اور دونوں کی امامت فی الحدیث اورجلالتِ شان پر علماء کا اتفاق ہے،حماد بن زید حصول علم کے بعد دولت بینائی سے محروم بھی ہوگئے تھے، اس کے باوجود انہوں نے وہ مقام پیدا کیاتھا کہ بڑے بڑے آئمہ حدیث ان سے استفادہ کو باعثِ فخر جانتے تھے۔ نام ونسب حمادنام اورابو اسمعیل کنیت تھی،والد کا نام زید تھا(العبر فی خبر من غبر:۱/۲۷۴) جریر بن حازم کے خاندان کے غلام تھے،ان کے دادا درہم سجستان کی جنگ میں گرفتار کرکے غلام بنالئے گئے تھے۔ ولادت ان کی ولادت اپنے وطن بصرہ میں ۹۸ھ میں ہوئی۔ شیوخ حماد بن زید نے جن علمی سرچشموں سے استفادہ کیا،ان میں سے چند ممتاز اسمائے گرامی یہ ہیں۔ انس بن سیرینؓ، ابو عمران الجونی ثابت البنانی،عبدالعزیز ین صہیب،عاصم الاحول محمد بن زیاد القرشی،سلمہ بن دینار،صالح بن کیسان،عمروبن دینار،ہشام بن عروہ اورعبید اللہ بن عمر (العبرفی خبر من غبر:۱/۲۷۴) تلامذہ حماد بن زید کے منبع فیض سے جو تشنگانِ علم سیراب ہوئے اس میں جلیل القدر اتباع تابعین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے کچھ ممتاز نام درجِ ذیل ہیں: عبدالرحمٰن بن مہدی، علی بن مدینی (تہذیب التہذیب:۳/۹)عبداللہ بن مبارک،ابنِ وہب،یحییٰ بن سعید القطان،سفیان بن عیینہ،سفیان ثوری،مسلم بن ابراہیم،مسذر،سلیمان بن حرب ،عمرو بن عوف،ابوالاشعث احمد بن المقدام۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۲) علم وفضل حماد بن زید کو مشہور تابعی ایوب سختیانی کی خدمت میں بیس سال تک رہنے کی سعادت نصیب ہوئی،(تہذیب التہذیب:۳/۹)یحییٰ کہتے ہیں کہ اس طویل مدت میں سوائے حماد کے ایوب سختیانی کا کوئی اور شاگرد حدیثوں کی کتابت نہیں کرتا تھا،ابن خثیمہ کابیان ہے کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا،کیا حماد لکھنا بھی جانتے تھے؟فرمایا: انا رایتہ واتیتہ یوم مطر فرایتہ یکتب ثم ینفخ فیہ لیجفہ (تہذیب الاسماء:۱/۱۶۷) ایک مرتبہ بارش کے دن میں حماد کے پاس آیا تو میں نے خود دیکھا کہ وہ لکھتے جاتے تھے اورپھر پھونک مار کر اس کو خشک کرتے تھے: اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابتداء سے نابینا نہیں تھے؛بلکہ ان کی بینائی ایک عمر کے بعدجاتی رہی تھی،مگر انہوں نے اپنی نابینائی کا اثر اپنے علم وفضل پر نہیں ہونے دیا،بعض لوگ ان کی نابینائی کی وجہ سے ان کے حفظ وثقاہت پر کلام کرتے ہیں،مگر حافظ ذہبی جیسے مستندمحقق نے انہیں "الامام الحافظ المجود شیخ العراق" کے الفاظ سے ذکر کیا ہے(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۶) علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ امام عالی مقام ہیں جن کی جلالتِ شان اوربلندی مرتبت پر سب کا اتفاق ہے(تہذیب الاسماء واللغات:۱/۱۶۷) علامہ ابن سعد فرماتے ہیں کہ حماد ثقہ قابلِ اعتماد،برہانِ حق اور کثیرالحدیث تھے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۱۰) ائمہ علم کا اعتراف تمام معاصرائمہ حدیث نے ان کے فضل وکمال کا اعتراف کیا ہے،ابن مہدی کا بیان ہے کہ اپنے اپنے زمانہ کے ائمہ چار ہیں کوفہ میں ثوری،حجاز میں مالک، شام میں اوزاعی اور بصرہ میں حماد بن زید(تہذیب التہذیب:۳/۱۰)یحییٰ بن یحیی ٰکہتے ہیں کہ میں نے حماد سے زیادہ حافظِ روایت کسی کو نہیں دیکھا(العبر:۱/۲۷۴)فطر بن حماد بیان کرتے ہیں کہ میں امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اہلِ بصرہ میں صرف حماد بن زید کو دریافت کیا(تہذیب التہذیب:۳/۱۰)ابنِ معین کا قول ہے کہ اتقان فی الحدیث میں حماد بن زید کے مرتبہ کا کوئی نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل ان کا ذکر بہت ہی عظمت اور عزت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے؛چنانچہ امام موصوف ہی کے الفاظ ہیں کہ: ھو من ائمۃ المسلمین من اھل الدین ھواحب الیَّ من حماد بن سلمہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۶) وہ مسلمانوں کے امام اوربڑے دیندار ہیں اور وہ مجھے حماد بن سلمہ سے بھی زیادہ پسند اورمحبوب ہیں۔ ابن مہدی کا ایک دوسرا قول ہے کہ میں نے حماد سے بڑا عالم سنت کسی کو نہیں دیکھا اور نہ علم میں حماد،مالک اورسفیان سے افضل واعلیٰ کسی کو پایا،ایک روایت میں ابن مہدی کے الفاظ اس طرح نقل کئے گئے ہیں کہ میں نے حماد سے بڑا کوئی عالم دیکھا ہی نہیں،یہاں تک کہ سفیان اورمالک کو بھی حماد سے بڑا عالم نہیں پایا۔ ابوعاصم بیان کرتے ہیں کہ حماد بن زید کی حیات میں ان کی سیرت واخلاق کے لحاظ سے دنیا میں ان کا کوئی مثل موجود نہ تھا (تہذیب التہذیب:۳/۱۰)محمد بن مصطفیٰ کا بیان ہے کہ انہوں نے بقیہ کو کہتے ہوئے سنا: مارایت فی العراق مثل حماد بن زید (ایضاً) میں نے عراق میں حماد بن زید،جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔ وکیع بن جراح کہتے تھے کہ ہم لوگ علم وفضل میں حماد کو مسعر بن کدام سے تشبیہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۷)دیا کرتے تھے،عبداللہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ ہم نے حماد بن زید سے بھی حدیثیں سنی ہیں اور حماد بن سلمہ سے بھی، لیکن دونوں میں وہی فرق ہے جو دینار اور درہم میں ہوتا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۱۱) حافظہ قوتِ حافظہ کے لحاظ سے بھی حماد بن زید معاصرائمہ وعلماء میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے،عجلی کہتے ہیں کہ حماد بن زید کو چار ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں اور ان کے پاس کوئی کتاب نہ تھی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۷) ابن عیینہ کا بیان ہے کہ سفیان ثوری کو اکثر میں نے ان کے سامنے دوزانو بیٹھے دیکھا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۱۰) احتیاط بایں ہمہ علم وفضل حماد بن زید روایتِ حدیث میں بہت احتیاط برتتے تھے یعقوب بن شیبہ کا بیان ہے کہ حماد بن زید،حماد بن سلمہ اور دوسرے بہت سے ائمہ ثقات سے زیادہ قابل وثوق ہیں،مگران میں کمزوری یہ تھی کہ وہ اسانید کو مختصر کردیتے تھے اور کبھی مرفوع کو موقوف بنادیتے تھے،وہ غایتِ احتیاط کی بنا پر بڑے شکی ہو گئے تھے،بڑے عظیم المرتبت تھے، ان کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی جس کی طرف وہ رجوع کرسکتے،اس وجہ سے کہیں وہ مرفوع حدیث کو موقوف بیان کرتے اورکبھی واقعی مرفوع حدیث بیان کرتے وقت بھی خوف سے لرزاں رہتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۱۱) فقہ حماد بن زید حدیث کے ساتھ فقہ میں بھی بلند وممتاز مقام رکھتے تھے،ابواُسامہ کہا کرتے تھے۔ کنت اذا رایت حماد بن زید قلت ادبہ کسریٰ وفقھہ عمر ؓ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۷) تم جب حماد کو دیکھو گے تو کہوگے کہ ان کو کسریٰ نے ادب اورحضرت عمر ؓ نے فقہ سکھایا ہے۔ ابن مہدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے بصرہ میں حماد بن زید سے بڑا فقیہ کوئی نہیں دیکھا۔ (تہذیب التہذیب:۳/۱۰) فہم و دانش دنیوی امور میں بہت سوجھ بوجھ رکھتے تھے،خالدبن فراش کا بیان ہے کہ حماد بن زید عقلائے روزگار اوردانشورانِ زمن میں سے تھے(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۶)ابن الطباع کا قول ہے کہ میں نے حماد بن زید سے بڑا عقلمند کوئی نہیں دیکھا۔ (ایضاً) وفات رمضان ۱۷۹ھ میں بصرہ میں علم وفضل کی یہ شمعِ فروزاں گُل ہوگئی۔ (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۷۴)