انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شیخ پر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں طالب علم سوال کرے توشیخ جواب دے یانہ دے طالب علم اس پر اصرار اور تکرار نہ کرے، آنحضرتﷺ ایک دفعہ سفر میں تھے، حضرت عمرؓ بھی ساتھ تھے، حضرت عمرؓ نے ایک بات حضورﷺ سے پوچھی، آپﷺ نے جواب نہ دیا، تین بار ایسا ہوا، آپ پر وحی اُتررہی تھی، حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) اس روایت پرلکھتے ہیں: "وفیہ ان العالم اذا سئل عن شیئی لایجب الجواب...... فیہ ان یسکت ولایجیب بنعم ولابلا..... ورب کلام جوابہ السکوت..... وفیہ من الادب ان سکوت العالم عن الجواب یوجب علی المتعلم ترک الالحاح علیہ..... فیہ الندم علی الالحاح علی العالم خوف غضبہ وحرمان فائدتہ فیما یستانف وقلّما اغضب العالم الااحترمت فائدتہ"۔ (التمہید:۳/۲۶۵) ترجمہ: اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالم سے جب کوئی بات پوچھی جائے تواس پرجواب دینا لازم نہیں..... اس میں یہ بھی ہے کہ وہ چپ رہے اور ہاں یانہ بالکل نہ کرے..... اور کئی ایسے سوال بھی ہوتے ہیں کہ ان کا جواب خاموشی ہی ہوتا ہے..... اور اس میں ادب کی تعلیم بھی ہے کہ عالم کا جواب دینے سے خاموشی اختیار کرنا ہی طالب علم پر ترک اصرار لازم کردیتا ہے..... اس میں یہ بھی ہے کہ عالم سے سوال کرتے اصرار ہوجائے تواس کی ناراضگی اور اس کے فائدہ سے محرومی کے اندیشہ سے اپنے پھرسے پوچھنے پر نادم ہو اور بہت کم ہوتا ہے کہ عالم کوناراض کردیا گیا ہو اور اس کے فائدہ سے محرومی نہ ہوئی ہو۔ اس روایت میں گوآپ کے جواب نہ دینے کا سبب نزول وحی ہے؛ مگرمحدثین نے اسے عام رکھا ہے، حضورﷺ کے بعد کسی عالم پر وحی نازل ہونے کا کوئی احتمال نہیں؛ لیکن اور کئی وجوہ ہوسکتے ہیں جن کے باعث عالم جواب نہ دے رہا ہو؛ سوطالب علموں کو چاہئے کہ ایسے ہرموقع پر ہرشیخ کے احترام کی کوشش کریں اور اس کی ناراضگی کے ہرانداز سے بچنے کی فکر کریں؛ ورنہ عالم کے فیض سے محروم رہنے کا قوی اندیشہ ہے۔