انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مذہب ہمارے نزدیک چونکہ انصار،نابت بن اسمعیلؑ کی اولاد ہیں،اس لئے ابتداءً ان کا مذہب بھی وہی رہا ہوگا، جو حضرت اسمعٰیلؑ اوران کی اولاد کاتھا،پھر جب عمروبن لحی کے ذریعہ سے بت پرستی پھیلی تو اوراسماعیلیوں کی طرح انہوں نے بھی اس کو اختیار کیا ہوگا؛چنانچہ واقعات حرف بحرف اس کی شہادت دیتے ہیں،انصار کے یمن کے زمانۂ سکونت میں تو کچھ پتہ نہیں چلتا؛البتہ جب سے انہوں نےیثرب میں اقامت اختیار کی اس کا حال کسی قدر معلوم ہے،خزرج اکبر سے چوتھی پشت میں نجار گذرا ہے جو بنو نجار کا مورثِ اعلی تھا، اس کا نام جیسا کہ تاریخوں میں مذکور ہے تیم اللات تھا، (طبری:۳/۱۰۸۵) لیکن بعد میں تیم اللہ ہوگیا؛چنانچہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں یہی اخیر نام لکھا ہے ،جو ممکن ہے انصار کے مسلمان ہونے کے بعد بدلاگیا ہو اوراس قسم کی بہت سی نظیریں موجود ہیں،بنو سمیعہ جاہلیت میں بنو ضماء کہلاتے تھے،آنحضرتﷺ نے ان کا نام سمیعہ رکھ دیا،(اسد الغابہ:۵/۱۷۹) قبیلے کے نام بدلنے کے ساتھ بہت سے اشخاص کے نام بھی تبدیل کئے تھے۔ غرض تیم اللات کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار میں لات کی پوجا ہوتی تھی انصار میں بعض قبائل اوس اللہ کہلاتے تھے،عجب نہیں کہ اوس اللہ بھی پہلے اوس اللات رہا ہو اور اگر یہ صحیح ہے تو انصار میں بت پرستی کی مدت چار پشت اورآگے بڑھ جاتی ہے اوراس کی ابتدا متعین ہوجاتی ہے؛کیونکہ اوس عمروبن لحی کا بھتیجا ہوتا تھا۔ (یعقوبی:۱/۲۹۵) مؤرخین عرب انصار کے بت کا نام مناۃ بتاتے ہیں جو نبطیوں کا بت تھا اورجس کاذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے: وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (النجم:۱۹) اورسب سے اخیر تیسرامناۃ یہ بنو اسمعیل میں سب سے پرانا تھا،(معجم البلدان:۸/۱۶۷) اس کے بعد لات پوجا گیا ہے (معجم البلدان:۷/۳۱۰) مناۃ قدید میں سمندر کے ساحل سے متصل (یعقوبی:۱/۲۹۶) مشلل نام ایک پہاڑ (معجم البلدان:۸/۶۷) پر نصب تھا،جو مدینہ سے سات میل ہے (معجم البلدان:۱۶۷) اوس وخزرج اورغسان اس کی پوجا کرتے تھے (طبقات ابن سعد،جلد۲،قسم۱،صفحہ۱۰۶) ان کے علاوہ اورقبائل بھی اس کو پوجتے تھے،مثلاً ہذیل،خزاعہ،ازوشنوہ (معجم البلدان:۸/۱۶۸) (اہل عمان) بنی کعب (زرقانی:۲/۴۰۲)اس بناء پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس کو صرف انصار پوجتے تھے،یا انصار میں صرف اسی کی پوجا ہوتی تھی اور دوسرے بتوں کی نہیں ہوتی تھی؛بلکہ جہاں تک قرائن سے پتہ چلتا ہے مدینہ میں اور بھی بہت سے بت پوجے جاتے تھے؛چنانچہ یاقوت نے لات کے تذکرہ میں لکھا ہے۔ وکانت قریش وجمیع العرب یعظمونھا (۷/۳۱۰) مناۃ کے متعلق بھی بعینہ یہی عبارت لکھی ہے (۸/۱۶۸)اورعزیٰ کے حالات میں تو اس مسئلہ کو بالکل صاف کردیا ہے؛چنانچہ لکھتے ہیں: ولم تکن قریش بمکۃ ومن اقامہ بھا من العرب یعظون شیا من الاصنام اعظامھم العزیٰ ثم اللات ثمہ مناۃ (۶/۱۶۸) اس سے معلوم ہوا کہ ان بتوں کی پرستش کسی خاص قوم یا قبیلہ میں محدود نہ تھی،انصار کے بتوں کی نسبت مورخ طبری نے ہجرت نبویﷺ کے ضمن میں ایک مقام پر لکھا ہے کہ حضرت علیؓ ایک مسلمان عورت کے ہاں جس کے شوہر نہ تھا اورقبا میں رہتی تھی،ایک دورات مقیم ہوئے تھے،اثنائے قیام میں روازانہ رات کو دروازہ کھلتا اوروہ عورت باہر سے کچھ لاکر رکھتی ؛چونکہ اس کے شوہر نہ تھا،حضرت علیؓ نے پوچھا رات کو دروازہ کیوں کھلتا ہے؟ بولی بات یہ ہے کہ میں بالکل لاوارث ہوں، اس لئے سہل بن حنیف رات کو اپنی قوم کے بت توڑتے ہیں اورخفیہ لاکر مجھ کو دے جاتے ہیں کہ ان کاایندھن بنانا(طبری:۳/۱۲۴۴) حضرت علیؓ پر سہل بن حنیف کے اس فعل کا بڑا اثر پڑا،اس روایت سے معلوم ہوا کہ انصار کے گھروں میں لکڑی کے بت کثرت سے تھے۔ بنو سلمہ میں عمرو بن جموح ایک نہایت ممتاز شخص تھا،جب حضرت معاذ بن جبلؓ وغیرہ مسلمان ہوئے،تو اس کے بت کو جس کا نام مناۃ تھا اورلکڑی کا تھا اٹھا کر پھینک آتے تھے عمرو کے ماسوا تمام سربرآوردہ لوگوں کے گھروں میں بت موجود تھے (سیرۃ ابن ہشام:۱/۲۴۸) اور مندروں میں جو بت موجود تھے ان کا شمار ان کے علاوہ تھا؛چنانچہ غنم بن مالک بن نجار کا ایک بت خانہ تھا جس میں بہت سے بت تھے اور عمروبن قیس اس کا متولی تھا (سیرۃ ابن ہشام:۱/۲۹۵) مذکورہ بالاقرائن کے باوجود کیا ان تمام بتوں کو مناۃ کی مورتیں فرض کیا جاسکتا ہے،علاوہ بریں انصار میں مختلف بتوں کے انتساب سے نام رکھے جاتے تھے، اوریہ خود ان کی متعدد بتوں کی پرستش پر دلالت کرتا ہے تیم اللات کا ذکر اوپر گذرچکا ،بنو جدیلہ (نجار) کے مورثوں میں ایک شخص کا نام زید اللات تھا،جس کو ابن ہشام نے اپنی عادت کے مطابق زید اللہ لکھا ہے،(سیرت:۱/۲۵۱) حضرت ابو طلحہؓ کے بزرگوں میں ایک شخص کا نام زید مناۃ تھا بنی ساعدہ میں جو خزرج اکبر کی اولاد تھے،ایک آدمی کا نام عبدود تھا(اصابہ:۶/۱۳۹) حارث بن خزرج کے ایک شخص مسمی بہ سفیان بن بشر کا نام ابن ہشام نے سفیان بن نسر بتایا ہے (سیرت :۱/۴۰۲) ابو عقیل عبدالرحمن کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ (اسد الغابہ:۵/۲۵۷) ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ انصار میں مناۃ کے علاوہ اوربتوں کی پوجا یا کم از کم تعظیم کا خیال ضرور موجود تھا ہمارے مورخین نے مناۃ کی جو تخصیص کی اس کے یہ معنی ہیں کہ اس بت کی انصار کے دلوں میں زیادہ عظمت تھی؛چنانچہ یاقوت نےلکھا ہے: ولم یکن احد اشد اغطامالہ من الاوس والخزرج (معجم البلدان:۸/۱۶۸) اوس وخزرج سے زیادہ کوئی قبیلہ مناۃ کی عزت نہیں کرتا تھا۔ تعظیم کی وجہ ظاہر ہے اوریہ خود مناۃ کے مادہ میں موجود ہے،مناۃ،منا سے نکلا ہے جس کے معنی قدر یعنی اندازہ کرنے کے ہیں ؛ چونکہ انصار اس کو قضاوقدر کا حاکم سمجھتے تھے اس لیے اس کی حددرجہ تعظیم کرتے تھے اوراس کی رضا جوئی کے لیے طرح طرح کی رسمیں ایجاد کرلی تھیں،مثلاً وہیں سے احرام باندھتے تھے ،وہیں ہدی بھیجتے تھے،حج سے واپس آکر وہیں سرمنڈواتے اور قربانی کرتے تھے۔ غرض انصار کا مذہب عام اہل مغرب کی طرح بت پرستی تھا، تاہم بعض بعض لوگ خدا پرستی کی طرف بھی مائل تھے اور اس کی مختلف صورتیں اختیار کی تھیں؛چنانچہ بعض لوگ یہودی ہوگئے تھے اور یہ خیبر کے یہود اورقریظہ اور نضیر کے میل جول کا نتیجہ تھا (یعقوبی:۱/۲۹۸) یہودی مذہب نے انصار میں جو مقبولیت حاصل کی تھی اس کا یہ اثر تھا کہ جب کسی عورت کے لڑکا زندہ نہ رہتا تو منت مانتی تھی کہ اگر اولاد پیدا ہوئی اورزندہ بچی تو اس کو یہودی بناؤں گی، اس طرح انصار میں یہودی مذہب اختیار کرنے والوں کی ایک خاصی تعداد ہوگئی تھی (ابوداؤ:۳/۹،باب الاسیر یکرہ علی الاسلام) جس میں قبائل عوف، نجار،حارث،ساعدہ،جشم،اوس ،ثعلبہ داخل تھے (سیرۃ ابن ہشام:۱/۲۷۹،۸۰) صرمہ ابو قیس (سیرت ابن ہشام :۱/۲۸۷) سلسلہ بن برہام(بنو نجار میں لبید بن عاصم و(بنوزریق ہیں) کنانہ بن صوریا(بنو حارثہ ہیں) اورقروم بن عمرو (سیرت ابن ہشام:۱/۲۸۷) (بنو عمروبن عوف ہیں) ان قبائل کے مشہور اور سربرآوردہ یہودی ہیں۔ بعض لوگوں نے حنیفی مذہب اختیار کرلیا تھا؛چنانچہ ابو قیس صرمہ کے متعلق مذکور ہے کہ انہوں نے یہودی مذہب اختیار کرلیا تھا؛چنانچہ ابو قیس صرمہ کے متعلق مذکور ہے کہ انہوں نے یہودی مذہب اختیار کرلیاتھا؛چنانچہ ابو قیس صرمہ کے متعلق مذکور ہے کہ انہوں نے یہودی مذہب اختیار کرکے چھوڑدیا اورعیسائی بننا چاہا؛لیکن پھر اپنے گھر کو عبادت گاہ بناکر گوشہ نشین ہوگئے اورکہنے لگے اعبدرب ابراھیم ! میں ابراہیم کے خدا کی عبادت کرتا ہوں۔ ابو قیس صیفی بن اسلت بھی اسی مذہب میں داخل تھا۔ (اسد الغابہ:۵/۲۷۸) بعض صرف توحید کے قائل تھے؛چنانچہ اسعد بن زرارہ اورابوالہثیم بن یتھا کا اسی میں شمار تھا،(طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۶) بعض عیسائی ہوگئے تھے، ابو الحصین کے بیٹے انہی میں شامل تھے،(اسد الغابہ:۵/۱۷۲) بعض ان کے علاوہ کسی اورمذہب کے پیرو تھے،مثلاً سوید بن صامت لقمان کی حکمتوں پر عمل کرتا تھا۔ (طبری:۵/۱۲۰۸) باایں ہمہ انصار کا ہر فرد مذہب ابراہیمی کے کچھ نہ کچھ احکام کا پابند تھا،حج بیت اللہ ،قربانی،مہمان نوازی،اشہر حرم کی عزت،فواحش کو براسمجھنا اورجرائم پر سزادینا،یہ تمام باتیں دین ابراہیمی کا جزو تھیں اورانصار ان پر کاربند تھے۔ نماز کی ایک بگڑی ہوئی صورت انصار میں باقی تھی؛چنانچہ ان کا ایک شاعر ابو قیس ابن اسلت حبشیوں کی مکہ میں شکست پر فرط مسرت سے کہتا ہے۔ فقوموافصلواربکم وتمحسوا بارکان ھذا البیت بیت الاخاشب (سیرۃ ابن ہشام:۱/۳۸) حج کرتے تھے اوراس کا یہ طریقہ تھا کہ گھر سے چلتے وقت شناخت کے طور پر کھجور کی جڑیں کاٹ کر دروازہ پر لٹکا دیتے تھے،(ابن اثیر:۱/۵۰۸) اس کے بعد قدید جاتے اورمناۃ کے سامنے نماز پڑہتے،پھر تلبیہ کہتے ہوئے مکہ آتے،(یعقوبی:۱/۲۹۶) تلبیہ یہ تھا،لبیک رب غسان راجلھا والفرسان (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۹) مکہ میں منی کی گھاٹی کے قریب ٹھہرتے ،صفا(طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۹)اور مروہ کا طواف کرتے (صحیح بخاری:۱/۲۲۳) پھر حج کے تمام رسوم ادا کرکے واپس ہوتے اور قدید پہنچ کر مناۃ کے سامنے سر منڈواتے،(مکہ میں سر نہیں منڈواتے تھے) اوروہاں چند روز قیام کرتے تھے اس کے بغیر حج کو نا تمام سمجھتے، ہدی بھی یہیں بھیجتے اوریہیں قربانی کرتے تھے (معجم البلدان:۸/۱۴۵)اس کے بعد گھر آتے اورمکانات میں دروازہ کے بجائے پشت کی کھڑ کیوں سے داخل ہوتے (صحیح بخاری:۲/۶۴) اورجب تک محرم رہتے اس پر عمل کرتے تھے۔ (یعقوبی:۱/۲۹) حج کے ایام میں شکار کھیلتے،(صحیح بخاری:۱/۲۴۵) لڑائیوں کو موقوف کرتے اور دشمنوں سے تعرض نہیں کرتے تھے (ابن اثیر:۱/۵۰۸) مکروزور سے نفرت کرتے؛چنانچہ ثعلبۃ العنقا کے متعلق اوپر گذرچکا ہے کہ محض جذع ابن سنان کی مکاری کی وجہ سے غسان کی حکومت چھوڑدی تھی۔ (معارف ابن قتیبہ) مہمان نواز تھے اور دشمنوں تک کی ضیافت کرتے تھے؛چنانچہ علامہ طبری نے لکھا ہے کہ جس زمانہ میں انصار اور تبع سے جنگ ہورہی تھی،انصاردن کو لڑتے اورشب کو اس کی ضیافت کرتے تھے۔ (طبری:۲/۹۰۱) عہد کوپوراکرتے اوراس کے لیے جان لڑادیتے تھے ،جنگ سمیر جو انصار کی پہلی لڑائی تھی اسی کا نتیجہ تھی اور قبیلہ ذبیان کے ایک شخص کی بدولت برپاہوئی تھی،(ابن اثیر:۱/۴۹۴) دشمنی اورمخالفت کی وجہ سے ان کو ایک دوسرے کا غلام بننا پڑتا تھا (اسد الغابہ:۵/۵۴۷) لیکن وہ بد عہدی کے مقابلہ میں اس ننگ کو گوارا کرتے تھے۔ میدانِ جنگ سے اگر ایک گروہ شکست کھاکر فرار ہوتا اوراپنے گھر چلا آتا تو دوسرا گروہ تعاقب سے احتراز کرتا تھا۔ (ابن اثیر:۱/۵۰۴) ان عمدہ باتوں کے ساتھ ساتھ ان میں بعض انتہادرجہ کی بداخلاقیاں موجود تھیں،مثلاً وہ سوتیلی ماں سے شادی کرتے تھے اوریہ رسم آغازِ اسلام تک جاری تھی؛چنانچہ جب ابو قیس بن اسلت کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے نے اپنی سوتیلی ماں کو نکاح کا پیغام دیا اور وہ آنحضرتﷺ کے پاس آئی تو آپ خاموش ہوگئے اوریہ آیت نازل ہوئی: وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ اس قصہ کے راوی کا بیان ہے کہ یہ سب سے پہلی عورت ہے جو اپنے شوہر کی اولاد پر حرام ہوئی،اس کا نام کبشہ بنت معن بن عاصم تھا۔ آبائی جائداد میں بیٹیوں کا کچھ حق نہ تھااولاد ذکور بھی جب تک نابالغ رہتی میراث کی مستحق نہیں ہوتی تھی۔ (اسد الغابہ:۷/۹۶) ان باتوں کے علاوہ ان کے عقائد میں چند اورباتیں بھی داخل تھیں جن میں ایک جھاڑ پھونک بھی ہے،آنحضرتﷺ کے زمانہ تک اس کے جاننے والے موجود تھے؛چنانچہ طبرانی نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے جھاڑ پھونک سے ممانعت فرمائی تو عمروبن حبہ نے جو سانپ کے کاٹے کو جھاڑ تا تھا آکر کہا کہ آپ اس سے منع فرماتے ہیں؛حالانکہ میں اس کا منتر جانتا ہوں اورجھاڑتا ہوں (یعنی اس ممانعت کی تعمیل کے باوجود نفس منتر جاننے اوراس کام کے کرنے کا کیا کفارہ ہوسکتا ہے) آنحضرتﷺ نے اس سے منتر سنا تو فرمایا اس میں کچھ ہرج نہیں اس کے بعد ایک دوسرا انصاری آیا اورکہا میں بچھو کو جھاڑتا ہوں،آپ نے کہا کہ تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکتا ہو پہنچائے۔ (اسد الغابہ:۴/۱۵) اسلام لانے کے بعد بھی انصار میں جھاڑ پھونک کا رواج باقی تھا؛چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعیدؓ خدری سے روایت آئی ہے کہ ان لوگوں نے ایک سفر میں کسی قبیلے کے رئیس کو جسے بچھو نے ڈسا تھا،جھاڑاتھا اوراس کے معاوضہ میں تیس بکریاں لی تھیں۔ (صحیح بخاری:۲/۷۴۹،باب فضل فاتحہ الکتاب) مردوں کو دفن کرتے تھے اور بقیع الفرقد کو قبرستان بنایا تھا۔ (خلاصۃ الوفاء:۳۶۲) ابن ہشام میں ایک موقع پر انصار کے عقائد کا ضمناً تذکرہ آگیا ہے؛چنانچہ وہ کہتے ہیں۔ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ أَهْلُ شِرْكٍ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ لَا يَعْرِفُونَ جَنّةً وَلَا نَارًا ، وَلَا بَعْثًا وَلَا قِيَامَةً وَلَا كِتَابًا ، وَلَا حَلَالًا وَلَا حَرَامًا (سیرۃ ابن ہشام، باب تفسیر ابن ہشام لبعض الغریب:۱/۵۳۹) اوس وخزرج مشرک تھے بت پوجتے تھے،جنت دوزخ بعث ونشر،قیامت کتاب ،حلال اورحرام کو نہیں جانتے تھے۔ اس کے بعد آگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ لوگ قیدیوں کا فدیہ توراۃ کے بموجب دیتے تھے اور یہ یہود کی صحبت کا اثر تھا۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۳۰۴)