انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت اور فتوحات خلافت فاروق اعظم ؓ نے اپنے عہد میں شام،مصر اور ایران کو فتح کرکے ممالک محروسہ میں شامل کرلیاتھا، نیز ملکی نظم ونسق اورطریقہ حکمرانی کا ایک مستقل دستور العمل بنادیا تھا، اس لئے حضرت عثمان ؓ کے لئے میدان صاف تھا، انہوں نے صدیق اکبر ؓ کی نرمی وملاطفت اورفاروق اعظم ؓ کی سیاست کو اپنا شعار بنایا اورایک سال تک قدیم طریق نظم ونسق میں کسی قسم کا تغیر نہیں کیا، البتہ خلیفہ سابق کی وصیت کے مطابق حضرت سعد بن وقاص کو مغیرہ بن شعبہ کی جگہ کوفہ کا والی بناکر بھیجا،(اب اثیر ج ۳ : ۶۱)،یہ پہلی تقرری تھی جو حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔ ۲۴ھ میں بعض چھوٹے چھوٹے واقعات پیش آئے، یعنی آذربیجان اورآرمینیہ پر فوج کشی ہوئی کیونکہ وہاں کے باشندوں نے حضرت عمر ؓ کی وفات سے فائدہ اٹھا کر خراج دینا بند کردیاتھا، اسی طرح رومیوں کی چھیڑ چھاڑ کی خبر سن کر حضرت عثمان ؓ نے کوفہ سے سلمان بن ربیعہ کو چھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ امیر معاویہ ؓ کی مدد کے لئے شام روانہ کیا۔ عہد فاروقی میں مصر کے والی عمروبن العاص تھے اورتھوڑا سا علاقہ جو صعید کے نام سے مشہور ہے عبداللہ بن ابی سرح کے متعلق تھا،مصر کے خراج کی جو رقم دربارخلافت کو بھیجی جاتی تھی، حضرت عمر ؓ ہی کے زمانہ سے اس کی کمی کے متعلق شکایت چلی آتی تھی اس لئے حضرت عثمان ؓ نے مصری خراج کا اضافہ کا مطالبہ کیا،عمروبن العاص نے کہلا بھیجا کہ اونٹنی اس سے زیادہ دودھ نہیں دے سکتی ، اس پر حضرت عثمان ؓ نے ان کو معزول کرکے عبداللہ بن ابی سرح کو پورے مصر کا گورنر بنادیا، مصریوں پر عمروبن العاص کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی،اس لئے ان کی برطرفی سے ان کے دلوں میں مصر پر دوبارہ قبضہ کا خیال پیدا ہوا، ۲۵ ھ میں ان کی شہ پاکر اسکندریہ کے لوگوں نے بغاوت کردی،حضرت عثمان ؓ نے مصر والوں کے مشورہ سے اس فتنہ کو فرو کرنے کے لئے عمروبن العاصؓ ہی کو متعین کیا،انہوں نے حسن تدبیر سے اس بغاوت کو فروکیا، اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے چاہا کہ فوج کا صیغہ عمر وبن العاص کے پاس رہے اورمال وخراج کے صیغے عبداللہ بن ابی سرح کے سپرد رہیں، مگر عمر وبن العاص ؓ نے اسے منظور نہ کیا،یعقوبی نےلکھا ہے کہ عمروبن العاص ؓ نے باغیوں کے اہل وعیال کو لونڈی غلام بناڈالا تھا،حضرت عثمان ؓ نے اس پر ناراضی ظاہر فرمائی اورجولوگ لونڈی غلام بنائے گئے تھے،ان کو آزاد کرادیا،(یعقوبی ج ۲ : ۱۸۹) اس کے بعد دوبرس تک عمر وبن العاص مصر کے مال وخراج کے افسررہے، اسی سال عبداللہ بن ابی سرح ؓ نے دربار خلافت کے حکم سے طرابلس(ٹریپولی) کی مہم کا انتظام کیا،نیز امیر معاویہ ؓ ایشیائے کوچک میں شامی سرحدوں کے قریب کے دو رومی قلعے فتح کرلئے۔ ۲۶ھ میں سب سے اہم واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی معزولی ہے،اس کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے بیت المال سے ایک لمبی رقم قرض لی تھی،حضرت عبداللہ ابن مسعود مہتمم بیت المال نے تقاضا کیا تو سعد نے ناداری کا عذر کیا اور یہ قضیہ دربار خلافت تک پہنچا، بیت المال میں اس قسم کا تصرف دیانت کے خلاف تھا، اسلئے حضرت عثمان ؓ نے حضرت سعد بن وقاص پر نہایت برہم ہوئے اور ان کو معزول کرکے ولید بن عقبہ ؓ کو والی کوفہ مقرر کیا،عبداللہ بن مسعود ؓ پر بھی خفگی ظاہرکی ؛لیکن چونکہ ان کی غلطی صرف بے احتیاطی تھی، اس لئے ان کو ان کے عہدہ سے نہیں ہٹایا۔ ۲۷ھ میں مصر کی دو عملی میں اختلاف شروع ہوااور عبداللہ بن ابی سرح اورعمروبن العاص نے جو فوجی اورمالی صیغوں کے افسر تھے دربار خلافت میں ایک دوسرے کی شکایت کی،حضرت عثمان ؓ نے تحقیقات کرکے عمروبن العاص کو معزول کردیا اور عبداللہ بن ابی سرح کو مصر کے تمام صیغوں کا تنہا مالک بنادیا عمر بن العاص اس فیصلہ سے نہایت کبیدہ ہوئے اور مدینہ چلے گئے،عمروبن العاص ؓ کے زمانہ میں مصر کا اخراج ۲۰ لاکھ تھا، عبداللہ ابن ابی سرح نے کوشش کرکے چالیس لاکھ کردیا، حضرت عثمان ؓ نے فخریہ عمرو بن العاص ؓ سے کہا دیکھو! آخر اونٹنی نے دودھ دیا انہوں نے جواب دیا کہ ہاں دودھ تو دیا ؛لیکن بچے بھوکے رہ گئے۔ فتح طرابلس مہم طرابلس کا اہتمام تو ۲۵ھ ہی میں ہوا تھا ؛لیکن باقاعدہ فوج کشی ۲۷ھ میں ہوئی، عبداللہ بن ابی ؓ سرح گورنرمصرافسر عام تھے،حضرت عثمان ؓ نے دارالخلافت سے بھی ایک لشکر جرار کمک کے لئے روانہ کیا جن میں عبداللہ بن زبیر ؓ ،عبداللہ بن عمروبن العاص اورحضرت عبدالرحمن بن ابی بکر خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ اسلامی فوجیں مدت تک طرابلس کے میدان میں معرکہ آراء رہیں،یہاں تک کہ مسلمانوں کی شجاعت ،جاں بازی اورثبات واستقلال کے آگے اہل طرابلس کے پاؤں اکھڑ گئے، عبداللہ بن ابی ؓ نے فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے بناکر تمام ممالک میں پھیلا دیئے،طرابلس کے امراء نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ ممکن نہیں ہے تو عبداللہ بن ابی سرح کے پاس آکر پچیس لاکھ دینار پر مصالحت کرلی۔ (یعقوبی ج۲ : ۱۸۹) فتح افریقیہ افریقیہ سے مراد وہ علاقے ہیں جن کو اب الجزائر اورمراکش کہاجاتا ہے،یہ ممالک ۲۶ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی ہمت وشجاعت اورحسن تدبیر سے فتح ہوئے، اس سلسلہ میں بڑے بڑے معرکے پیش آئے اور بالآخر کامیابی اسلامی فوج کو حاصل ہوئی اوریہ علاقے بھی ممالک محروسہ میں شامل ہوئے۔ اسپین پر حملہ افریقیہ کی فتح کے بعد اسپین کا دروازہ کھلا؛چنانچہ ۲۷ھ میں حضرت عثمان ؓ نے اسلامی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اورعبداللہ بن نافع بن عبدقیس اور عبداللہ بن نافع بن حصین دوصاحبوں کو اس مہم کے لئےنامزد کیا، جنہوں نے کچھ فتوحات حاصل کیں؛لیکن پھر مستقل مہم روک دی گئی اور عبداللہ بن ابی سرح ؓ مصر واپس بھیجے گئے اور عبداللہ بن نافع بن عبد قیس افریقیہ کے حاکم مقررکئے گئے۔ عبداللہ بن ابی سرح ؓ کو انعام حضرت عثمان ؓ نے عبداللہ بن ابی سرح سے وعدہ کیا کہ افریقیہ کی فتح کےصلہ میں مال غنیمت کا پانچواں حصہ ان کو انعام دیا جائے گا،اس لئے عبداللہ نے اس وعدہ کے مطابق اپنا حصہ لے لیا ؛لیکن عام مسلمانوں نے حضرت عثمان ؓ کی اس فیاضی پر ناپسندید گی کا اظہار کیا، حضرت عثمان ؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے عبداللہ بن ابی سرح سے اس رقم کو واپس کرادیا اورفرمایا کہ میں نے بے شک وعدہ کیا تھا؛لیکن مسلمان اس کو تسلیم نہیں کرتے،(طبری ص ۲۸۱۵)اس لئے مجبوری ہے۔ ایک اور روایت ہے کہ افریقیہ کا خمس مدینہ بھیجا گیا تھا جو مروان کے ہاتھ پانچ لاکھ دینار میں بیچا گیا تھا،ابن اثیر نے ان دونوں روایتوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ عبداللہ ابن ابی سرح کو افریقہ کے پہلے غزوہ شاید طرابلس کے مالِ غنیمت کا خمس دیا گیا تھا اورمروان کے ہاتھ پورے افریقہ کی غنیمت کا خمس بیچا گیا تھا۔ فتح قبرص قبرص جس کو اب سائپرس کہتے ہیں بحر روم میں شام کے قریب ایک نہایت زرخیز جزیرہ ہے اوریورپ اورروم کی طرف سے مصر وشام کی فتح کا دروازہ ہے اور مصر وشام کی حفاظت اس وقت تک نہیں ہوسکتی تھی اور نہ رومیوں کا خطرہ اس وقت تک دور ہوسکتا تھا جب تک یہ بحری ناکہ بندی مسلمانوں کے قبضہ میں نہ ہو، اس لئے امیر معاویہ ؓ نے عہد فاروقی ہی میں اس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی تھی،مگر حضرت عمر ؓ بحری جنگ کے خلاف تھے اس لئے انکار کردیا،اس کے بعد ۲۸ھ میں امیر معاویہ ؓ نے پھر حضرت عثمان ؓ سے اصرار کے ساتھ قبرص پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی اور اطمینان دلایا کہ بحری جنگ کو جس قدر خوفناک سمجھا جاتا ہے،اس قدر خوفناک نہیں ہے،حضرت عثمان ؓ نے لکھا کہ اگر تمہارا بیان صحیح ہے تو حملہ میں مضائقہ نہیں؛لیکن اس مہم میں اسی کو شریک کیا جائے جو اپنی خوشی سے شرکت کرے،اس اجازت کے بعد عبداللہ بن قیس حارثی کی زیر قیادت اسلامی بحری بیڑہ قبرص پر حملہ کے لئے روانہ ہوا اورصحیح وسلامت قبرص پہنچ کر لنگر انداز ہوا،عبداللہ بن قیس امیر البحر ناگہانی طورپر شہید ہوئے؛لیکن سفیان بن عوف ازدی نے علم سنبھال کر اہل قبرص کو مغلوب کیا اورشرائط ذیل پر مصالحت ہوئی۔ (۱)اہل قبرص ۷۰۰۰ہزار دینار سالانہ خراج اداکریں گے۔ (۲)مسلمان قبرص کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ (۳)بحری جنگوں میں اہل قبرص مسلمانوں کے دشمنوں کی نقل وحرکت کی ان کو اطلاع دیا کریں گے۔ (ابن اثیر ج۳ : ۷۴،۷۵) اہل قبرص کچھ دنوں تک اس معاہدہ پر قائم رہے؛لیکن ۳۳ھ میں انہوں نے اس کے خلاف رومی جہازوں کو مدددی،اس لئے امیر معاویہ ؓ نے دوبارہ قبرص پر فوج کشی کی اور اس کو فتح کرکے ممالک محروسہ میں شامل کرلیا( ایضاً ج ۶ : ۱۰۷) اورمنادی کرادی کہ آئندہ سے یہاں کے باشندے رومیوں کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہ رکھیں۔ والئ بصرہ کی معزولی حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ عہد فاروقی سے بصرہ کی ولایت پر مامور تھے،حضرت عثمان ؓ نے بھی اپنے زمانہ میں چھ برس تک ان کو اس منصب پر برقرار رکھا؛لیکن یہاں ایک بڑی جماعت ہمیشہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی مخالفت پر آمادہ رہتی تھی؛چنانچہ حضرت عمر ؓ کے عہد میں بارہاان کی شکایتیں پہنچیں، مگر فاروقی رعب وداب نے مخالفین کو ہمیشہ دبائے رکھا، حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں ان کو آزادی کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے خلاف سازش پھیلانے کا موقع مل گیا،اسی اثناء میں کردوں نے بغاوت کردی،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے مسجد میں جہاد کا وعظ کیا اورراہ میں پیادہ پاچلنے کے فضائل بیان کئے، اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے مجاہدین جن کے پاس گھوڑے موجود تھے وہ بھی پیادہ پا چلنے پر تیار ہوگئے؛لیکن چند آدمیوں نے کہا کہ ہم کو جلدی نہ کرنا چاہئے،دیکھیں ہمارا والی کس شان سے چلتا ہے؟چنانچہ صبح کے وقت دارالامارۃ کے قریب مجاہدین کا مجمع ہوا،حضرت ابوموسیٰ اس شان سے نکلے کہ ایک ترکی نسل کے گھوڑے پر سوار تھے اورچالیس خچروں پر ان کا اسباب وسامان تھا،لوگوں نے بڑھ کر باگ پکڑلی اورکہا‘‘قول وفعل کا یہ اختلاف کیسا؟ دوسروں کو جس چیز کی ترغیب دیتے ہو اس پر خود کیوں عمل نہیں کرتے؟‘‘حضرت ابوموسیٰ ؓ اس کا کوئی تشفی بخش جواب نہ دے سکے اور اسی وقت ایک جماعت شکایت لے کر مدینہ پہنچی اور ان کی معزولی کا مطالبہ کیا،حضرت عثمان ؓ نے ۲۹ھ میں ان کو معزول کردیا اور عبداللہ بن عامر کو اس منصب پر مامور کیا، (طبری : ۲۹۲۸) فتح طبرستان ۳۰ھ میں عبداللہ بن عامر ؓ بصرہ کے نئے والی اور سعید بن عاص ؓ نے دو مختلف راستوں سے خراسان اور طبرستان کا رخ کیا سعید بن عاص کے ساتھ امام حسن ؓ،امام حسین ؓ، عبداللہ بن عباس ؓ،عبداللہ بن عمر ؓ،عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ اورعبداللہ بن زبیر ؓ جیسے اکابر شریک تھے، ان لوگوں نے پیش قدمی کرکے عبداللہ بن عامر ؓ کے پہنچنے سے پہلے جاجان ،خراسان اورطبرستان کو فتح کرلیا،(ابن اثیر ج۳ : ۸۴)اسی اثنا میں ولید بن عقبہ والی کوفہ کے خلاف ایک سازش ہوئی اوران پر شراب خوری کا الزام لگایا گیا،یہ الزام ایسا تھا کہ حضرت عثمان ؓ کو انہیں معزول کرنا پڑا اوران کی جگہ سعید بن عاص ؓ کوفہ کے والی مقرر ہوئے۔ عبداللہ بن عامر ؓ نے اپنی مہم کو جاری رکھا اور ہرات،کابل اورسجستان کو فتح کرکے نیشا پور کارخ کیا،بست، اشندورخ،خواف،اسبرائن،ارغیان وغیرہ فتح کرتے ہوئے خاص شہر نیشاپور کا رخ کیا، اہل نیشا پور نے چند مہینوں تک مدافعت کی ؛لیکن پھر مجبور ہوکر سات لاکھ درہم سالانہ پر مصالحت کرلی۔ عبداللہ بن عامر ؓ نے نیشا پور کے بعد عبداللہ بن خازم کو سرخس کی طرف روانہ کیا اور خود ماوراء النہر کی طرف بڑھے،سرخس کے باشندوں نے اطاعت قبول کرلی،اہل ماوراء النہر نے بھی مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اوربہت سے گھوڑے ،ریشمی کپڑے اور مختلف قسم کے تحائف لے کر حاضر ہوئے،عبداللہ بن عامرؓ نے صلح کرلی اورقیس بن الہثیم کو اپنا قائم مقام بنا کر خود اسباب وسامان کے ساتھ دارالخلافہ کا رخ کیا۔ ایک عظیم الشان بحری جنگ ۳۱ھ میں قیصر روم نے ایک اعظیم الشان جنگی بیڑا جس میں تقریبا پانچ سوجہاز تھے سواحل شام پر حملہ کے لئے بھیجا ،مورخین کا بیان ہے کہ رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں ایسی عظیم الشان قوت کا مظاہرہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا، امیر البحر عبداللہ بن ابی سرح نے مدافعت کے لئے اسلامی بیڑے کو آگے بڑھایا اورسطح سمند پر دونوں آپس میں مل گئے،دوسری صبح کو مسلمانوں نے اپنے کل جہاز ایک دوسرے سے باندھ دیئے اور فریقین میں نہایت خونریز جنگ ہوئی،بے شمار رومی مارے گئے،مسلمان بھی بہت سے شہید ہوئے ؛لیکن ان کے استقلال وشجاعت نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے اور ان کی بہت تھوڑی تعداد زندہ بچی،خود قسطنطین اس معرکہ میں زخمی ہوا اور اسلامی بیڑہ مظفر ومنصور اپنی بندرگاہ میں واپس آیا۔ (ابن اثیر ج ۳ : ۹۱) متفرق فتوحات قبرص، طرابلس اورطبرستان کے علاوہ حضرت عثمان ؓ کے عہد میں اور بھی فتوحات ہوئیں، ۳۱ھ میں خبیب بن مسلمہ فہری نے آرمینیہ کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں شامل کرلیا۔ (ایضاً) ۳۲ ھ میں امیر معاویہ ؓ تنگنائے قسطنطنیہ تک بڑھتے چلے گئے، ۳۲ھ میں عبداللہ بن عامرؓ نے مرورود،طالقان،فاریاب اور جوزجان کو فتح کیا، ۳۳ ھ میں امیر معاویہ ؓ نے ارض روم میں حصن المرأۃ پر حملہ کیا، اسی سال اہل خراسان نے بغاوت کی عبداللہ بن عامرؓ والی بصرہ نے احنف بن قیس کو بھیج کر اسے فرو کرایا،اسی طرح ۳۴ھ میں اہل طرابلس نے نقص امن کیا، عبداللہ بن ابی سرح نے ایک لشکر جرار کے ساتھ چڑھائی کرکے انہیں قابو میں کیا۔